Pages

Sunday 19 June 2016

Fathers Day


ہمارا شمار ان بیٹیوں میں ہوتا ہے جن کے متعلق مائیں صبح شام گفتگو کرتی ہیں کہ "پّیو نے وگاڑیا اے میرے وس ہوئے تے دو منٹ ایچ سیدھا کر دیواں" 

وہ الگ بات کہ ابا کہ ہوتے ہوئے وہ دو منٹ کبھی نہ آ پائیں گے.اماں جب کبھی سول گورنمنٹ کی طرح ہماری کسی شرارت کی یا تخریب کاری کی شکائیت ابا کو لگاتیں تو ابا ایجنسیوں ہی کی مانند نہایت اطمنان سے ریڈنگ گلاسسز کہ اوپر سے جھانکتے ہوئے کہتے ٹھیک ہو جائے گی.
اور اماں کہتی اے نہیں جے ہوندی فیر.
اور ہمارا سارا بچپن اسی کشمکش میں گزرا کہ اماں کو صحیح ثابت کیا جائے یا ابا کو___ پھر یہ سوچتے ہوئے کہ ابا تو اپنے جگر ہیں اماں کو صحیح ثابت کر دیتے ہیں برا نہ لگ جائے انہیں. اور یوں اب ہم بگاڑ کی ناقابل اصلاح سٹیج تک ابا کہ خصوصی تعاون سے بخیرو عافیت پہنچ گئے.
تعاون کی نوعیت کچھ یوں رہی کہ ہماری پیدائش سے پہلے ابا خاندان کے سارے بچوں کی ڈسپلن و امور بستی کہ ماہر سمجھے جاتے تھے.
خاندان کہ سارے بچے ابا سے ڈرنے کا فریضہ نہائت جانفشانی سے سر انجام دیا کرتے تھے جس سے گو کہ ماؤں میں اضطراب پایا جاتا تھا لیکن اندروں اندر وہ خوش بھی تھیں.
خوشی کے اس موسم میں پیلا کنکر چودہ فروری کی صبح صبح ہم نے گرایا..
بڑی بڑی سے تھوڑی چھوٹی آنکھیں کھولیں اور معصومیت سے پٹ پٹا کر اپنی آمد کا ثبوت دیا اور ڈر والےکہ آگے جیت ہے کوـاپبا ماٹو بتا دیا 
گو کہ ڈاکٹر نے ہمیں انکیوبیٹر میں رکھنے کا مشورہ دے کر گھر والوں کو ڈرانے کی حتی الاامکان کوشش کی لیکن وہ ہم ہی کیا جو ڈر جائیں کسی سازش سے ہم نے بھی جب اگلے دن گلا پھاڑ پھاڑ رو کہ پورا کلینک سر پہ اٹھا لیا تو ڈاکٹر نرسیں ہاتھ جوڑ سراپا التجا ہو گئے کہ اپنی کڑی نو کار لے جاؤ..
اور وہ دن اور آج کا دن کوئی ہمیں انڈر ایسٹیمٹ نہ کر سکا.
جب بچے ماؤں کی گود میں دبک کر کل دنیا مافہیا سے بے پرواہ ہو کے سوتے تھے ہم ابا کے بازو پہ سر رکھ کے سوتے تھے.
جب امیاں اپنے ہاتھوں پہ نوالے ٹھنڈے کر کر کہ بچوں کہ منہ میں ڈالتی ہیں ہم اس عمر میں ابا کی پلیٹ سے کھانا کھاتے تھے.
جب سکول سے واپسی پر دن بھر کی کہانیاں امی کو سنانا روٹین ہوتی ہے ہم ابا کہ منتظر ہوتے کہ کب میسر ہوں اور ہم بتائیں آج اس کو مارا اس کو پھینٹا.
ایک کزن کی خطرناک پھینٹی کے بعد جب اماں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کرانے کی کوشش کی تو وہ ابا ہی تھے جنہوں نے ان ساری پابندیوں کو چیلنج کردیا.
الغرض پورا بچپن اور آدھا لڑکپن( آدھا ابھی باقی ہے) 
ابا امی کہ سامنے اور پورے خاندان کے سامنے ہماری ڈھال بنے رہے ہماری پھپھو تائی چاچی بس دانت کچکچا کہ رہ جاتیں جب ہم ان کہ لعل کو لال کرتے اور خودابا کی گود میں سیاسی پناہ لے لیتے..
سائیکل چلانے سے کیرم کھیلنے تک اور بیڈ منٹن سے لڈو میں روند بولنے تک ہر شئے ابا سے سیکھی.
ابا کے بعد فیملی میں ہم وہ واحد ہیں جو لڈو اور کیرم میں کبھی نہیں ہارے..کیونکہ یہ گر بھی ابا نے سیکھایا کہ جب بھی ہارنے لگو رٹا ڈال لو
جوں جوں بڑے ہوتے گئے ابا کہ ساتھ تعلق مزیدار ہوتا گیا پہلے سائیکل لڈو کیرم کھیلا کرتے تھے پھر ابا نے میری اور میں نے ان کی کتابیں بھی پڑھنا شروع کر دئیں تاریخ، مذہب اور سیاست اباسے میں نے اور ادب شاعری اور فلسفہ ابا نے مجھ سے لے لیں. یوں اماں نے ہم پر بلکل ہی فاتح پڑھ لی.
ابا کہ ساتھ تعلقات میں ہماری شرطوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے.میں اور ابا اماں کہ فتوے شرط حرام ہے کہ باوجود روزانہ کی بنیاد پر ایک آدھی شرط لگاتے ہیں اب اپنے منہ یہ بتاتی کہ کیا خاک اچھی لگوں گی کہ میرا جیتنے کا ریشو نائنٹی ایٹ پرسنٹ ہے.. اور ابا کا ہر بار کا چیلنج کہ "آنے" اس بار تو پکا ہارا..
اور آنا ہمیشہ جیت کہ کہتی نہ ابو جی آپ کو شرطوں پر مزید محنت درکار ہے.اور اماں اس جملے پر ہمیشہ انگشت بدنداں کہ باپ ہے وہ تمہارا...
اور میں بھی ہمیشہ کہتی ہوں امی ابا ہیں اسی لیے تو اور دیکھا ہے کبھی کسی کہ ساتھ ایسا فرینک رویہ؟؟
کیونکہ جب باپ بیٹیوں کو کانفیڈینس دیتے ہیں تو پھر باہر انہیں کسی خاص تعلق کی حاجت نہیں رہتی. 
ابا آپکی بیٹی آپکی آنے آپکو حشر کی صبح بھی دائم دیکھنا چاہتی ہے..
سحرش

No comments:

Post a Comment