Pages

Saturday 18 June 2016

خیال اور سوال


وہ ایک لمحہ سوال کا

سوال میرے خیال کا
خیال اس کے جمال کا
جمال بھی، "لازوال" کا
میں پوچھ بیٹھی 
دعا بھی قبول کرتے ہو کبھی کسی کی؟
کبھی جو تم نے ملائے ہوں؟
ٹوٹے دل اور شکستہ روحیں
ناراض چہرے اداس لہجے
ہوں لوگ میرے ناکام جیسے
غم کی گہری ہوں شام جیسے
لہجے بھیگے آنکھ نم ہے 
بچے بستیوں میں ہنستے کم ہیں
مائیں بھی لوریاں سناتی نہیں ہیں
باپ کندھے جھکائے گم ہیں
کسی الجھن کی تال میں
کسی گہرے ملال میں
زندگی کے اس جال میں
سوال پوچھا__ یہ بندا تیرا
کیوں ہے ایسے ہی حال میں
تو تو منصف ہے تو کریم
تو تو رب ہے تو رحیم
معاف کرتا ہے فرعونوں کو بھی
پھر یہ میرے لوگ،یہ تیرے بندے
یہ میری بستی، اور تیری ہستی
تخیلوں کہ سوال سارے
جواب پا گئے جو پڑھ کہ دیکھا
"لا تقنطو" کا پہلا کلمہ
مالک ہے وہ یوم الدین کا
یہ دیکھا اور قرار پایا
کسی نے چپکے سے جی میں ڈالا
کہ دعا جو قبول کرتا نہیں ہے
حشر میں میزان میں رکھ دے گا
جیسے ماں ڈانٹے چیز چھینے
بعد میں وہ تکیے میں رکھے
جو دل ہیں ٹوٹے عزیز اس کو
شکستہ روحیں قریب اس کے
منصف بھی بلا کا تاجر بھی
ان مع العسر یسرا___ یہ کہہ کہ راحت جو دل کو بخشی
ذرا سا صبر، اور میری رفاقت
یہ سب جو دیکھا
بھول بیٹھی سوال اپنے خیال جیسا
رہا خیال تو بس__ اس کے جمال
جمالِ لا زوال جیسا
سحرش

No comments:

Post a Comment