Pages

Friday 20 January 2017

ہم سے کوئی راہ نہیں نکلی


کبھی کبھی جی چاہتا ہے نا کہ ایسے کسی رستے پر پہروں ننگے پاؤں چلتے رہیں ۔۔۔ اتنا چلیں کہ سڑک کے آخری سرے سے جا ملیں۔ اور جو سڑک کا سرا ہو، وہ میری آپ کی دنیا کا بھی آخری سرا ہو۔ جس کے کنارے پر چپکے سے پاؤں لٹکا کر بیٹھ جایا جائے۔


کچھ کہے سنے بغیر بس خاموشی سے کسی ستارے کی جانب پاؤں لٹکا کر ہم بیٹھے رہیں۔ ہر وابستگی سے پرے، ہر تعلق سے اوپر۔ بس ہم ہوں، تنہائی ہو، خاموشی ہو اور دنیا کا آخری سرا ہو۔ سارے سخت لہجے، سب تلخ جملے اس خاموشی میں گھلتے رہیں۔ آپ کی زمیں کا سورج، آپ کی پشت سے ہوتا ہوا آپ کے سامنے ڈوبنے لگے۔ اس کی مرتی ہوئی روشنی میں آپ کا عکس، پت جھڑ میں درخت پر لگے اس آخری پتے سا ہو، جسے روز گزرنے والا مسافر لمحہ لمحہ مرتا ہوا ۔۔۔۔ سبز سے پیلا ہوتا ہوا دیکھے اور اس کی زندگی کی دعا کرے۔



تمہیں پتا ہے ۔۔۔۔ قریب الموت شخص کو زندگی کی دعا نہیں دیتے لوگ ۔۔۔ آسانی کی دیتے ہیں۔ شاید ترس آجاتا ہے لوگوں کو بیماری میں اس شخص پر اور وہ سوچتے ہیں کہ یہ اپنے حصے کی زندگی بھگت چکا ہے۔ اب کیا اسے زندگی کی دعا دینا۔ چلو اس کے لیے آسانی مانگتے ہیں رب سے، کہ یہ زندگی سے رہا ہو کر آسانی پا جائے۔ تمہیں پتا ہے میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ زندگی کے ساتھ کوئی اور آپشن بھی ہونا چاہیے تھا۔ یہ جیتے ہی جانا کوئی چوائس نہیں ہے۔ لوگوں کواپنے سامنے بدلتے ہوئے دیکھو، جیئے جاؤ۔ عہد حاضر کو ڈھلتے ہوئے دیکھو، جیئے جاؤ۔ کسی خواب کی لاش آنکھوں میں بھر کے، کسی یاد کا کوئلہ سینے میں دہکا کر، کسی مان کی کرچیاں دل میں چھپائے، بس جیئے جاؤ۔ یعنی حد ہے زندگی بھی۔ جیسے پہلا سوال ہے نا کوئسچن پیپر کا ۔۔۔ لازمی اور بنیادی۔



اتنی بڑی کائنات کے اتنے وسیع وعریض انتظام میں زندہ رہنے پر رب نے کمپرومائز نہیں کرنے دیا۔



ایک دفعہ پہلے رب سے کہا تھا کہ میں تیری دنیا کے معیارات سے قطعی مطمئن نہیں۔ آج تو حد ہی ہوگئی۔ دل چاہتا ہے کہوں اس سے، میرا تیری دنیا میں اب جی نہیں لگتا۔ ذرا بھی جو یہ دل آمادہ ہو، اس پہلے بنیادی اور لازمی سوال کو حل کرنے میں۔ اب تیرے بندے مجھے یاسیت کا طعنہ دیں گے۔ پر فرق کسے پڑتا ہے اب؟ انہیں طعنے دینے کے سوا اور آتا بھی کیا ہے؟ اس دنیا سے کوئی چیز اٹھائی جا سکتی ہے کیا؟ ذرا رہنے کے قابل تو لگے۔ ایسے تو دم گھٹتا ہے میرا۔ پھر جو مَیں دم گھٹنے سے مر مرا گئی اور رپورٹس میں کچھ بھی لیم سی ایکسکیوز آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا اسکا؟
کیا تجھ کو راس آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟
دیکھ تُو دنیا سے جہالت، بے حسی، خود غرضی کو نہیں اٹھا سکتا تو کم از کم شعور، آگہی اور حساسیت ہی کو اٹھا لے۔ یہ تیرے بندے اپنی ہی آگہی کے ہاتھوں مبتلائے آزار رہیں گے کیا؟؟ بس تُو اب یا تو سب کو بے حس بنا، یا پھر حساسیت کے لیے سزائے موت کا کن کہہ دے۔
تیرے بندوں کے آزار سے سخت پریشان ہیں ہم۔ اب تُو ہی کوئی راہ نکال۔ ہم سے تو کوئی راہ نہیں نکالی جاتی۔ ہمیں توکوئی رستہ نہیں سوجھ رہا اب۔

1 comment:

  1. آپ کے اس ایک جملے نے ڈھیڑوں خون بڑھا دیا ہے

    ReplyDelete