Pages

Friday 30 September 2016

I keep finding this decision hard


وہ میرا خواب تھایا خیال یا کوئی سوچی سمجھی سکیم
میں فرق جاننے سے قاصر ہوں۔ست پارہ  جھیل کےبیچوں بیچ چلتی ہوئی کشتی چپو تھامے وہ شائد تم ہی تھے۔کیونکہ اسقدر لاتعلقی سے میرا خیال تمہارے سوا کون رکھ سکتا ہے بھلا؟ جو احساس بھی نہ ہونے دے اور سدا ساتھ ساتھ بھی رہے۔سنو جب تم ساتھ تھے تو تمہاری موجودگی شائد ہی کبھی محسوس ہوئی ہو
لیکن اب تم ساتھ نہیں ہو تو تمہارے ساتھ کااحساس مجھے کسی کل چین نہیں پڑنے دیتا۔مجھے یہ احساس لکھنے کی ترغیب بھی تمہارے بھولے بسرے لفظوں نےدی ہے۔ یاد ہے پیپرز کے دنوں میں لکھی ہوئی نظم پڑھ کر کیا کہا تھا تم نے؟؟

تم نے کہا تھا امتحانوں میں لکھا زیادہ کرو اور پڑھا کم۔حیرانگی سے سراپا سوال ہوئی تو ہنس کر کہنے لگے اچھا لکھا ہے۔اب بھی امتحان سر پر ہیں اور میں بیٹھی نظمیں لکھ کہانیاں بن رہی ہوں کہ شائد ان کہانیوں کی بنت میں کوئی دھاگا ایسا الجھے کہ تم چڑ کے سلجھانے آ پہنچو۔دھاگے کی تند سیدھی کرو اور غصے سے کہو کوئی کام تو ڈھنگ سے کیا کرو۔میں تنک کرکہوں مدد کردی ہے تو احسان مت چڑھاؤ۔اور
تم کہو واحد ایک غصہ ہے جو تم ڈھنگ سے کرتی ہو۔تمہاری تعریف بھی تمہاری ہی طرح ہوا کرتی تھی۔ سمجھ میں نہ آ سکنے والی۔کبھی کہنا اس رنگ میں زیادہ بری نہیں لگتی ہو۔کبھی کہنا لائبریری سے باہر آجاؤ تمہارا  وہاں کیا کام  اور میرے گھورنے پر مصنوعی وضاحت ارے بھئی پڑھاکو جو ہوئی

ویسے تم صحیح کہتے تھے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی ہوں۔ اب یہ ہی دیکھ لو ست پارہ جھیل سے بات شروع کر کے لائیبریری تک لے آئی ہوں۔یہ خود کلامی یونہی چلتی رہی تو کچھ بعید نہیں مستقبل کے کسی خواب کو بھی ادھر ہی ترتیب دے ڈالوں۔کاغذ پہ خواب بننے کی تو یوں بھی بہت ماہر ہوں۔کاغذ پہ ہی تو وہ ٹری ہاؤس بنا کر دیا تھا تمہیں جہاں رٹائرمنٹ کے بعد رہنے والی تھی اور مجھے یقین ہے تم نے وہ کاغذ گم کر دیا ہوگا۔تم بھی کم لاپرواہ نہیں تھے۔کبھی جو تمہیں اپنا خیال رکھنا یاد رہا ہو۔ بیماری میں دوا لینا تک بھول جاتے تھے۔اب بھی ایسے ہی ہو گے تمہارے لیے بدلنا ممکن نہ تھا۔ممکن ہوتا تو میں تمہیں اپنے رنگ میں نہ رنگ لیتی؟
ست پارہ جھیل کا منظر تھا۔بلند و بالا سنگلاخ چوٹیوں کے درمیان سبک خرام بہتی ہوئی پرسکون جھیل۔جھیل میں چلتی ہماری کشتی..نہیں یہ کہنا شائد زیادہ مناسب ہو کہ ایک کشتی میں بیٹھے ہم دو مسافر۔کبھی کبھی ایک ہی منزل کو جاتی ایک ہی راہ پر ایک ساتھ چلنے والے مسافر بھی ہم سفر نہیں ہو پاتے
یوں بھی راہیں، راہیوں کی مرضی پسند اور انتخاب ہوا کرتی ہیں۔کوئی کسی پر اپنی راہ  کیسے مسلط  کر سکتا ہے؟
جھیل کے اردگرد کی چوٹیاں اتنی بلند ہیں کہ جھیل کے لیے انہیں سر کر لینا ممکن نہیں ہے۔آتے جاتے سیاح کہتے ہیں یہ چوٹیاں جھیل کی مخافظ ہیں۔ یہ جھیل کو بچانے کیلئے کھڑی ہیں
لیکن کشتی کے آگے پیچھے ڈولتے چپو۔پانی کی خاموش اداسی اور چوٹی پر سے جھانکتا الجھا الجھا سورج مجھے اس حفاظت کی کہانی پر اعتبار نہیں آنےدے رہا۔جانے کیوں مجھے لگایہ چوٹیاں جھیل کو سفوکیٹ کر رہی ہیں
یہ خیال بھی بڑی شدت سے آیا کہ ہمارا تعلق بھی توایساہی تھا ست پارہ جھیل جیسا۔ ریتوں،رواجوں، اناؤں کی بلند آہنگ سنگلاخ چوٹیوں کے درمیان الجھا ہوا، بکھرابکھرا..جس کو اون کرنے سے چوٹیاں ہمیں مار دینے پر تل سکتی تھیں
اور جب میں تمہیں کہتی تھی ان چوٹیوں کو سر کر لینا  ممکن ہے اور تم پوچھتے تھے سر کر کے کیا کرنا ہے؟سنو تم صحیح کہتے تھے چوٹیاں سر کر بھی لیتی تو جھیل کدھر جاتی؟؟ساری وادی ہی چوٹیوں کے حصار میں مقید ہے۔جھیل کے لیے بس یہی آزادی ہے کہ دونوں چوٹیوں کے درمیان چپ چاپ اپنی ڈگر پہ چلتی رہے
تمہارا خیال شائد صحیح تھا۔جھیل بغاوت کر بھی لے تو کیا تیر مار لے گی؟ رہنا تو اسے بستی میں ہے  
تم نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہر اک بے جان تکلف سے بغاوت ہو بھی سکتی ہے۔وادی کو اپنے پانیوں سے سیراب کرےیا جھیل چوٹیوں سے محترم ٹہر بھی سکتی ہے
کاش کوئی ساحر سا ہوتا پرانے ہجوں سے نئے لفظ بنتا اور کسی نئے آہنگ میں یہ بتاتا کہ اب
ہر اک بے جان تکلف سے بغاوت کا ارادہ ہےکہ اب تعلق کی جھیل کو اون کرلینے سے قیامتیں نہیں ٹوٹا کریں گی

No comments:

Post a Comment