گلیلیو کا آخری فقرہ
یاد ہےنا کہ
مارڈالو یا نوچ ڈالو
زمیں تو بہر صورت گھومتی ہے.
وہ سقراط کا کہنا
مر تو جاؤں آگہی نہ چھوڑوں.
یہ زہر آب حیات جیسا.
جو شعور نہ بیچے نہ مستی چھوڑے.
مستی اس "مجنون"__
کےیوریکا جیسی.
وہ اک نعرہ مستانہ
انا الحق____
وہ پانا آگہی کا وہ حیرت کو چکھنا.
بڑی لذت آفرین کیفیت ہے.
جو اس کو پا کہ مر تو جائے
گلیلیو پادری کی دھمکی میں نہ آئے.
جو سقراط زہر میں حیات پائے.
یہ آگاہی "اقرا" جیسی
ُُاُمی)(صلی علیہ وسلم)کو کل جہاں کا
استاد منوائے.
ایک قدر جو سب میں مشترک.
آگہی کے عذابوں میں.
اک مصیبت جہل بھی ہے.
روایت بھی اس کی دشمن پرانی.
تو مختصر بس یوں ہے.
کہ اگر روایت کو چھیڑ بیٹھو.
عین ممکن ہے کافر کہلاؤ
ہو بھی سکتا ہے مارے جاؤ
پر جاتے جاتے یہ ہی کہنا.
کہنا____ زمیں تو بہر صورت گھوتی ہے
آگاہی کو واپس موڑ دینا ممکن نہیں ہے.
سحرش
No comments:
Post a Comment