Pages

Saturday 17 September 2016

مضطرب سعی


پہلا چکر لگایا ہوگا، نہیں بلکہ چکر سے بھی پہلے اس ننھے وجود کو بھینچ کر سینے میں بھرنے کی کوشش کی ہوگی۔ اپنی آنکھوں کے پانی کو زیر غور لائی ہوں گی۔ کیسی بے بسی سے ارد گرد دیکھا ہوگا۔ ہر شے پر انہیں پانی کا گماں ہوا ہوگا
لیکن صحرا کی ریت لاکھ سراب دکھے، ریت ہی رہتی ہے۔ جب کچھ نہ بن پڑا ہوگا، جب کوئی چارہ نہ بچا ہوگا تو پھر اس لخت جگر کو جسے ماں خود سے جدا کرنے کا سوچے بھی تو جان حلق میں آتی ہے۔ اسے تپتی ریت پہ لٹا کر دیوانہ وار لپکی ہوگی وہ عورت، جسے لہجوں میں تمسخر بھر کے کہہ دیتے ہو، کمزور عورت، ناتواں عورت۔ پتہ ہے جب وہ ماں بنتی ہے تو کیا کرتی ہے؟ صحرا کو قیامت تک چلنے والا چشمہ عطا کرتی ہے۔ اپنے بچے کی پیاس پر کیسی دیوانگی سے اس نے چکر کاٹے ہوں گے

پہلے چکر پر خیال آیا ہوگا اسے، کہ رب بڑا منصف ہے، وہ عدل کرے گا

دوسرے چکر پر اس سے ایڑیاں رگڑتا ننھا وجود برداشت نہ ہوا ہوگا تو وہ عدل سے دستبردار ہوگئی ہوگی۔ اس نے کہا ہوگا کہ رحیم ہے میرا رب، غفور ہے. وہ ابھی ابر رحمت برسائے گا
تیسرے پر تو رو ہی پڑی ہوگی کہ اللہ یہ کیسا امتحاں ہے؟ کہا ہوگا اس نے کہ خالق تو مجھ سے آزمائش لے ،لیکن میرا بچہ تو معصوم ہے۔ وہ میرے جگر کا ٹکرا میرے وجود کا حصہ، اللہ تو اسے  آزمائش میں مت ڈال۔ اگلے چکر کا اضطراب حد سے سیا ہوگا۔ اور رب نے وہ اضطراب بھی حشر تک کے لیے زندہ کر دیا کہ جب جب کوئی ان پہاڑیوں پہ چلے گا تو تیز قدم چلے گا۔ اب سے کوئی آہستہ روی سے نہ چلے گا
اور پانچویں چکر میں وہ تجارت کرنے لگی ہوگی۔ وہ عورت، وہ ماں، رب کو واسطے دینے لگی ہوگی کہ میری کوئی نیکی، میراکوئی عمل،. کوئی دعا، کوئی ادا، تجھے پسند آئی ہو تو اس کا اجر دے دے، آج میرے بچے کی پیاس بجھا دے، میں حشر تک تجھ سے کوئی اور سوال نہ کروں گی۔
چھٹے چکر پر اپنی محبت کی مثال دینے والے کو اسی محبت کا حوالہ دیا ہوگا، زمین پر سب سے معتبر حوالہ ماں کا۔پھر اس نے نے آسمان کی طرف رخ کیا ہوگا۔ شاکی نظروں سے آسمان کو دیکھا ہوگا. اب بس وہ چپ ہو گئی ہوں گی۔ کیسی خاموش دعا تھی جو عرش کو چیر کے رب کے پاس پہنچی۔ مقبول ہو کے پلٹی اور وہ عورت وہ ماں، نبی کی ماں، کائنات کی سب سے زیادہ کی جانے والی عبادت کر کے پلٹی تو اس کا بچہ پیاسا نہیں تھا۔ اور رب نے ان کی سنت سب سے بڑی عبادت کا حصہ بنادی تھی اور نام کیا رکھا؟ ۔ سعی  ۔ یعنی کوشش۔ کتنا خوبصورت نام اور اس میں چھپے معنی خوبصورت تر، کہ میاں انسان! تمھارا کام صرف کوشش کرنا ہے۔ انجام کے ذمہ دار تم نہیں۔ اپنے حصے کی کوشش پوری لگن سے کر گزرو۔ پھر امید کا دیا جلاؤ اور ڈوری مجھے تھما کر بے فکر ہوجاؤ
صاف ہی کہہ ڈالا کہ تم بس صندوق میں ڈالو۔ میرا نام لو اور نیل کے حوالے کردو۔ حفاظت میرا کام ہے۔ میں جانوں میرا کام
اور کوشش بھی اپنی بساط بھر۔ ہاجرہ کے بس میں بس مضطرب چکر ہی تھے اس نے لگا ڈالے، زم زم چلانا،رب کا کام تھا سو ان سے اپنے بندے کا اضطراب بھی قبول کیا
 اس بڑھیا کا قصہ بھی یاد ہوگا جو سوت کی اٹی لے کر خریداران یوسف میں جا کھڑی ہوئی تھی، استفسار پہ کہنے لگی کہ میں میسر سامان لے گئی تھی
تو بس قصہ یہ ہے کہ میسر سامان لے جائو۔اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے کہ یہی کل اثاثہ ہے۔ اب تجھ پر ہے، رکھ لے یا لوٹا دے۔ اور اس جملے کو بےنیازی مت سمجھ۔ وہ تجھے زیبا ہے، اس میں عاجز کی بےبسی دیکھ وہ جو لے کے آیا ہے
اور یہ کہ اپنی سی کوشش چاہے وہ صورت اضطراب ہی قرار پائے کہ اپنا حق ادا کرنا ہے۔اگر اس نے قلم دیا ہے تو لفظ لکھیں، تاثیر اتارنا اس کا کام ہے. وہ جو قادر ہے قادر مطلق

No comments:

Post a Comment