Pages

Saturday 3 September 2016

ایک خیال کی کہانی


چند تتلیاں میرے خوابوں جیسی

کچھ جگنو میرے لفظوں جیسے.
اک مسکراہٹ اس کے خیال جیسی.
اک ساعت کوئی وصال جیسی.
اس کا خیال سرمئی شام جیسا.
شام میرے خیال جیسی.
شام پہلے سے جام جیسی.
مئے خانے کی دہلیز جیسی.
ساقی کے پہلے پہلے اکرام جیسی.
وہ شاعری کے انعام جیسی.
مہکی مہکی گلاب جیسی
بہکی بہکی نگاہ جیسی.
الجھی الجھی زلف کی مانند.
سلجھی سلجھی آداب جیسی.
وہ شام شائد یہیں کہیں ہے.
دالان کی سیڑھی پہ جیسے ڈائری.
ڈائری میں نثر ہو لکھی.
ساتھ ہلتا ہو خالی جھولا.
جیسے کوئی ابھی اٹھا ہو.
کافی کے مگ کا دھواں بھی.
پین کی نب پر سیاہی بھی.
ٹوٹے پتے کی آوارگی بھی.
وہ بجتے نغمے کی تال بھی.
سب ابھی بھی تازہ ہوں جیسے.
وہ شام میرے پاس ایسے.
ایسی ہی اک شام میں.
بچھڑنے کا قصد کیا تھا نا.
ہم مل نہیں پائیں گے،
یہ کہا تھا نا.
یہ بھی کہا تھا یہ آخری منظر ہے.
اس کو روک پانا ممکن نہیں ہے.
تو سنو ہمدم.
میرا ہلتا ہوا جھولا.
میرا گرتا ہوا پتا.
سبھی "منزل" تک نہیں پہنچے
میرے گھر کے آنگن میں وہی منظر.
وہی میں ہوں.
میں اس آخری شام کو.
روک بیٹھا ہوں.
جو ہو ممکن تم بھی چلے آؤ.
ابھی ڈائری کے اس صفحے پر
نثر کچھ لکھنا باقی ہے.
سحرش

No comments:

Post a Comment