Pages

Saturday 30 July 2016

The child inside your heart is still brave and alive


جب غم دنیا (دنیا کی جگہ دل پڑھا جائے) سے گھبرا کر آتی جاتی، چلتی پھرتی، سوتی جاگتی ہر شئے سے الجھنے لگتے ہیں۔آنکھیں سرخ کیے ہر شخص کو گھورا کرتے ہیں۔تو خدا جانے کونسا سگنل ہوتا ہے، جسے پکڑ کے سولو(پالتوکتا) پیروں میں لوٹنیاں لینے اور آتے جاتے گول گول گھومنے کی بجائے پنجہ آنکھوں پہ دھر کے اونگھتا رہتا ہے۔پنجرے میں سارا دن طوفان بد تہذیبی برپا کیے رکھنے والے پرندے بھی "اوئے چپپپپ" کی بجائے "شششش" سے سہمنے لگتے ہیں.بلیاں بھی دروازے کی نیٹ کھرچنے کی بجائے چپ چاپ دبے پاؤں سیڑھیاں اترتی چڑھتی رہتی ہیں.اور تو اور شیشے کو بجانے سے بھی جب تینوں چھوٹی مچھلیاں رسپانس نہیں کرتیں۔
تو سبلنگز کی مختصر جرنلزم ایک سطری رپورٹ پیش کرتی ہے کہ "چڑیا گھر ، مالکہ سمیت اداس ہے"
وجوہات وہی غم دنیا میرا مطلب ہے دل۔
تو ایسی صورت میں ہم سٹریٹ کی نکر پہ بنے سٹور سے دنیا جہاں کی چاکلیٹس خریدتے ہیں۔ پیدل چلتے ہوئے گلی سے باہر سڑک کے اس پار ریلوئے کوارٹرز کے ساتھ بنے پارک میں جا گھستے ہیں
جہاں ہر عمر کا بچہ اپنی مختصر سی دنیا میں رنگ بھر رہا ہوتا ہے۔کینچے کھیلتے ہوئے چھوٹے بہت سے شریر بچے
آنکھوں پہ پٹی بندھی بچی کے آگے دوڑتی قدرے سمجھدار بچیوں کی ٹولی
لڑتے جھگڑتے بچے اپنے اپنے مسائل سے نبرد آزماء بچے
جن کو دیکھ کر ایک دفعہ تو بندہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ کونسی سیلف کری ایٹیڈ ہرڈلز تھیں جن کے آزار آپ کل عالم سے بیزار خود سے روٹھے بیٹھے تھے( جی ہاں کسی کی اپنے بارے میں پاس کی ہوئی چھوٹی ججمنٹس پر پریشاں پھرنا سیلف کری ایٹیڈ ہرڈلز ہی ہوتی ہیں)
آج شام تک بھی ایسا ہی دن تھا صبح سے دل گرفتگی اور زود رنجی اپنے عروج پر تھی۔سستی شبنم بننے میں تو یوں بھی ہم دیر نہیں لگاتے ۔اب کہ تو ہمارے پاس ویلڈ ریزن تھی۔ ارے وہی غم دل والی۔ تو ہم نے سوچا اس سے پیشتر کہ اماں ہماری زود رنجی کا علاج کسی دیسی ڈش میں ڈھونڈ کے اس قیامت کی حبس میں ہمیں  کچن میں کھڑا کریں کیوں نہ اپنے دوستوں سے ملا جائے۔وہی سٹور سے مین سٹریٹ، وہاں سے سڑک کے پار پارک میں جا گھسے۔بچوں کو ان کی آنکھوں کی بے فکری، اس پر بے ساختگی دیکھ کر اگر کچھ لمحوں کے لیے حیران ہو گئی تھی، رشک سے تو بے جا تو نہ تھا.
بے فکری کم نعمت تھی جو ظالموں نے ہنسنا بھی نہیں چھوڑا تھا.
پارک کے بچوں میں سے ایک نے دیکھتے ہی نعرہ لگایا باجی چاپلیٹ۔اور باجی بے ساختہ ہسنتی چلی گئی..بہت دنوں بعد اپنی ہنسی کی آواز سن کر فرحت کا سا احساس ہوا۔ اپنے ہونے کا گمان گزرا
بچوں سے چاکلیٹس کے بدلے کینچے کھیلنے سیکھے۔ ایک بچے نے بتایا کہ یہ جس چھوٹے ہول میں بڑی انگلی سے نشانہ لے کے اس میں کنچے ڈالتے ہیں اس ہول کو پلہ کہتے ہیں اور جس کا کینچہ چلا جاتا ہے اسے دوسرا فریق دو کنچے دیتا ہے۔
بچیوں نے ہاتھوں پہ لگی مہندی کے رنگ کے پیچھے چینی والے پانی کی کرامت بتائی اور ساتھ ہی بتایا کہ اگر گیلی مہندی والا ہاتھ دھو دیا جاے تو چڑیا رنگ بھی ساتھ لے جاتی ہے کیونکہ مہندی چڑیا کی اور رنگ ہمارا ہوتا ہے...
اور تین سالہ ایان نے کہا تیرا دھیان کدھر ہے۔ یہ تیرا ہیرو ادھر ہے...
اور میں واقعی سوچنے لگی کہ میرا دھیان کدھر ہے؟؟؟
چھوٹی چھوٹی ججمنٹس پر غصہ کرنا اور ری ایکٹ کرنا۔ یہ تو نہیں کرنا تھا زندگی میں۔دنیا تو یوں بھی گنبد کی سی ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے لفظوں کی بازگشت سننے پر مجبور ہے..تو میں نے بھی کچھ لوگوں کو باز گشت سننے پر لگایا..
سیلفیاں بناتی بہن کو متوجہ کیا اور پارک سے باہر چلی آئی..
آج بچوں سے ایک اور بات سیکھی کہ صاف نیت والے وقتی طور پر الجھ ضرور سکتے ہیں، مستقل پریشان نہیں رہتے۔
میں تو واپس آگئی اپنے چڑیا گھر۔گلی کے سارے گھروں کے باہر سے پھول توڑتی ہوئی۔


No comments:

Post a Comment