Pages

Saturday 30 July 2016

بڑوں کے بچوں کے ساتھ بدلتے تعلقات اور رویے


ماؤنٹینز ایکوڈ، کے اندر بک مارک لگاتے ہوئے سوچ کا پنچھی اپنے اردگرد بکھری بہت کہانیوں کے تانے بانوں میں الجھ گیا۔ بہت سے بچے، ان کے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات، بچوں پر اس تعلق کے اثرات، بہن بھائیوں کے کردار کی اک فرد کی زندگی میں اہمیت سے ذہن الجھتا الجھتا تعلقات کی نوعیت اور وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی پر جا اٹکا۔
عمر کے اس حصے میں تو ابھی پہنچے نہیں کہ جہاں اپنا بچپن اور اس میں موجود خوشیاں ہی زندگی کا حاصل لگتی ہیں۔ ابھی ناسٹلیجیا کا وہ دور بھی نہیں آیا کہ بس اپنا بچپن ہی سہانا لگے۔ ویسے کبھی کبھی یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں بچپن اس لیے پیارا نہیں ہوتا کہ وہ بہت شاندار زمانہ ہوتا ہے بلکہ اس لیے بھی خوبصورت لگتا ہے کہ اس دور کی بے فکری آنے والی زندگی میں پھر نصیب نہیں ہوتی۔ اس دور میں اپنی ہنسی کی آواز سننے کے لیے محنت نہیں کرنا پڑتی، انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ بس یونہی بلاوجہ ہی قہقہے پھوٹ پڑتے ہیں۔ مور کے پر ملنے کا مطلب ہوتا تھا کہ آپ دنیا کے بہترین بک مارکس کے حامل ہیں۔ بارش میں آنگن میں لگی انگور کی بیل اور اس پر اترتی چڑھتی گلہری۔گل دوپہر کے کھلنے کے انتظار میں کڑی دھوپ میں کیاریوں کا طواف اور اس پر اماں کی ڈانٹ۔ سوچ کر ہی مسکراہٹ ہونٹ سے آنکھ اور وہاں سے دل کے کسی گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔
بچپن کی ایسی باتیں اب بھی میسر ہیں لیکن اب انھیں دیکھنے اور اسی محویت سے دیکھنے کی نہ تو فرصت ملتی ہے نہ ویسی خوشی۔ شاید گلہری کی شرارت کا تعلق بھی میرے بچپن سے تھا اور شاید پلاسٹک منی  کی طر ح اب ہم پلاسٹک بک مارکس کے عادی ہوگئے ہیں۔ اب ہر چیز اپنی افادیت کے پیراہن میں نظر آتی ہے۔شائد اسی لیے بھی ہمیں اپنا بچپن بہت پیارا ہوتا ہے کہ تب چیزیں فائدہ مند نہیں، خوشی دینے والی ہوتی تھیں
ویسے بات تعلقات کے انداز  بدلنے سے شروع کر کے اپنے بچپن اور گلہری کی شرارت تک لے جانا بھی کسی خاتون کا ہی خاصہ ہو سکتی ہے
خیر! تعلق تو واقعی بدل گئے ہیں۔ مثبت اور منفی ہر دو طرح کی تبدیلیاں۔ اب والدین اور بچوں یا یوں کہہ لیں بڑوں اور بچوں کے درمیان تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہیں۔ بچہ چونکہ معاشرے کا مستقبل اور امید ہوتی ہے اور پورے معاشرے کی معاشرتی ذمہ داری بھی لہذا جب  بچوں کے ساتھ تعلقات اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر بات ہوگی تو وہاں ہم سب کی بات بھی ہوگی اور سب کی ذمہ داری کی بھی
جہاں وقت نے تعلقات پر مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ جیسے دوستی، بے تکلفی، کو رواج دیا ہے اور والدین  یا بزرگ، جہاں خوف کی علامت نہیں رہے، وہیں پر وقت نے تعلقات کی بہت سی خوبصورتیاں بھی چھین لی ہیں.
اب بچے برینڈڈ کپڑے پہنتے ہیں اور بارش میں نہیں بھیگتے
اب بلی، طوطے پالنے سے (بچوں کو کم اور ان کی ماؤں کو زیادہ) انفیکشن ہوجاتا ہے
وقت نے ماؤں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ اب ان کے پاس بچوں کو سنانے کے لیے کہانیاں ہیں، نہ وقت۔
مائیں تو مائیں اب تو نانیاں دادیاں بھی ورکنگ ہو گئی ہیں۔ اور بچے پوکی مان تلاش کرتے کرتے اپنی ثقافت، اپنے رویوں اور اپنے لوگوں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ اس سارے چکر میں جو ناقابل تلافی نقصان ہوا وہ کہانیوںاور قصوں کا، کہانی  ہو جانا ہے۔ جی ہمارے بچے کہانی سے دور چلے گئے۔ انہیں قصے سنانے اور کہانی ہی کہانی میں اچھائی اور برائی کے درمیان فرق سمجھانے والے نہ رہے۔ وہ جنوں پریوں کے قصے، دوستی محبت کی داستانیں، جادگروں کا انجام، ہیرو کی بہادری، ہیروئن سے ہمدردی، اس کو بچانے کے لیے کبھی کوہ قاف، کبھی پرستان تو کبھی گہرے مہیب جنگلوں کے پھیرے۔ ان پھیروں کے چکر میں ایک احساس ذہن  میں بٹھا دیا جاتا تھا کہ آپ سے وابستہ خواتین آپ کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔کوئی سمجھا جاتا تھا کہ برائی کی حد ہے، اچھائی کی نہیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ ہر شب غم کی ایک صبح ہے، تیرگی کو بہر کیف زوال ہے
اور پتا ہے آپ سب کو! ایسی کہانیاں سن کے بڑے ہونے والے بچے ڈپریشن، فرسٹریشن جیسے لفظوں سے آگاہ نہیں تھے۔ یہ جو ہمارے بچے شاخ پہ لگی ننھی کونپل کی عمر میں ہی ڈپریشن اور مایوسی جیسے لفظوں سے آگاہ ہیں تو یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ ٹیکنالوجی کا غیرضروری استعمال، ہر شے میں جلدی، طاقت کا بلاجواز اور بےدریغ استعمال سکھانے والی گیمز
اب یوں ہے کہ وقت کا پہیہ الٹا چلانے پر تو ہم آپ قادر ہیں نہیں۔ نہ اس ٹیکنالوجی کو اپنے بچوں کی زندگیوں سے یکسر نکال  سکتے ہیں ۔لیکن ہاں! ہم اس کے بےدریغ استعمال کو کم کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو لفظوں میں موجود احساسات کی چاشنی سے  متعارف کرا سکتے ہیں۔ جو انھیں آپ سے، ہم سے، اپنی جڑوں سے، اپنی تہذیب سے جوڑے رکھے۔ تاکہ ہمارے بچے شاخ سے ٹوٹے پتے کی مانند بے یقین مستقبل کاشکار  نہ ہوں
لہذا میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ آج سے اپنی بھتیجی کے لیے کہانیاں لکھا کروں گی۔ جنوں کی، پریوں کی کہانیاں، اچھائی کی، برائی کے قصے۔
میں اسے بتاؤں گی کہ جادوگروں کے انجام اچھے نہیں ہوا کرتے اور میں اسے بتاؤں گی کہ بہادری اور سچائی وہ ٹریٹس ہیں جو فقیر کو بادشاہ بنا دینے پر قادر ہوتے ہیں
اور میں اسے بتاؤں گی کہ ظلم کے خلاف لڑنے والے ہی درحقیقت ہیرو ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کسی لکڑ ہارے کہ بچے ہوں یا مزدور کے
اور میں چپکے سے رفتہ رفتہ اس کے اندر اچھی پریوں کی محبت اور ظالم دیو سے نفرت ڈال دوں گی تاکہ جب وہ پریکٹیکل لائف میں آئے تو پھر کسی ظالم جابر کی نا انصافی کو وقت کا جی ون سمجھ کے خاموش نہ رہے بلکہ اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہو.

No comments:

Post a Comment