Pages

Friday 1 July 2016

پیتنے تھے جو مےٗ


ویسے میں سوچ رہی تھی کہ غالب آج اگر زندہ ہوتے تو شاعری کرنے کی بجائے کچی اور جعلی مئے پی کر ادیب رضوی کے کلینک میں لیٹے....سائیں کچی سرکار کی ہجو کہہ رھے ھوتے....اور تو اور بعد از وفات غالب..، شوباز شریف بھی پانچ لاکھ کا چیک لے کر فوٹو سیشن کراتے....اور کئی این جی اوز مفت قبر کا اعلان کر دیتیں....موم بتی آنٹیوں نے تو سیلفیز لے لے کے حلق حشک کر لینے تھے اپنے.. ....تو مختصر یہ کہ  میاں اسد... وقت پر سٹک لیے.... ہم تو ایسے دور میں جی رہے ہیں کہہ یہاں مئے تو مئے یہاں تم زہر لینے نکلوتو وہ بھی خالص نہ نکلے

اور کچی پی کے کیا خاک شاعری کرتے تم
اب یہ ھی دیکھ لو...کیا مضمون باندھا ھے تم نے



ھوئی اس دور میں منسوب مجھ سے باده آشامی
پھر آیا وه زمانہ،جو جہاں میں جام جم نکلے



آج جو کہنا بھی چاھتے تو کیا یہ ھی



کہں مے خانے کا دروازہ کہاں غالب!اور کہاں واعظ

بس میاں ہم تو اسی بات پر خوش ہیں کہ آج نہ ہوئے تم ...نہیں تو کچی سے بچتے تو میٹھے پان کے آزار جان جان آفرین کے سپرد کر دیتے....ھمارا کیا تھا ک، دو چار دن آنسو بہا کر قسمت پر شاکر ہوکرحیات میں مگن ہوجاتے مگر ان کا کیا ہوتاجن کی تنقید کا موضوع ہی غالب اور مئے ہے....ان کی تو لٹیا ھی ڈوب جاتی....کیا ہی خوب ہوا جو بہادر شاه ظفر کے بیٹے کا سہرا لکھا اور چل دیے آج ھوتے تو خادم اعلی کے سہرے ھی ختم نہیں ھونے تھے....وه ختم ھوتے تو ایان کا قصیده لکھوانے آ دھمکتے عاشقان....قصیده کا قصہ تمام نہیں ھونا تھا کہ مذھب کی ھجو لکھواتے تم سے میرے شہر کے لوگ.....اور اس ھجو کی پاداش میں مارے جاتے تم بے موت میری بستی کے پرھیزگاروں کے ھاتھوں

سحرش

No comments:

Post a Comment