Pages

Thursday 4 August 2016

Search for a smile


ٹرمنل سے نکلتے ہی جب ڈیئوو لنک روڈ سے ٹرن لے کے جی ٹی روڈ پہ آئی تو میرے بائیں ہاتھ ساتھ ساتھ پنجاب کی تیسری بڑی نہر بھی چلنے لگی موسم اپنے جوبن پر تھا آسماں کا رنگ بھی محبت کے اولیں دنوں سا سرمئی تھا جس میں کہہ دینے کی سرشاری بھی تھی اور کہے جانے کی جھجک بھی بادل بھی ٹہر ٹہر کے برسنا شروع ہو گیا اور بارش میری کھڑکی کے شیشے پر دستک دینے لگی.گہرا سرمئی آسماں بہتی ہوئی نہر، شفاف، تار کول کی بھیگتی ہوئی سڑک پہ ہولے ہولے چلتی ہوئی گاڑی میرے کانوں میں بجتا رم جھم گرے ساون__
ایسے میں جب شیشے پہ چہرہ ٹکائے میں مگن باہر دیکھا کرتی ہوں تو بس ہوسٹس اعلان کرے کہ موسم کی "خرابی" کی وجہ سے ہم مقررہ وقت سے لیٹ ہو سکتے ہیں.ابھی موسم کے اس شادی شدہ حال پہ ماتم کرنے کو ہی تھی کہ بہت سے کوفت زدہ چہرے ان پر بیزاری دیکھ کے مجھے بے ساختہ ہیلن کیلر یاد آئی جو "پوچھا" کرتی ہے کہ "اتنی خاص دنیا میں لوگ عام زندگی کیسے گزار لیتے ہیں"
اسی ایک نکتے پہ سوچتی رہتی میں جو بارش خود کو نظرانداز کیے جانے پر کسی نک چڑھی حسینہ کی مانند پاؤں پٹخنے لگی اور کھڑکی کا شیشہ پھر سارے منظر دھندلے کر گیا. بارش جوں جوں زمین پہ گرتی ہے مجھے لگتا ہے زندگی کی نوید دیتی ہے پنجاب کے بیلوں میں یہ سیلیبریشن کا موسم ہوتا ہے.جب آسماں مہرباں ہو کہ دنیا کے بہترین چاول اگانے کا ساماں کر جاتا ہے چاول وہ جو کئی تہذیبوں،ثقافتوں میں خوش بختی کی علامت سمجھے جاتے ہیں.اور اس خوش بختی کو میرے لوگ زمیں سینچ کر اگاتے ہیں.
اس پیشتر کے خیال کا پنچھی ڈال ڈال اڑتا بیلوں جنگلوں سے ہوتا کسی صاحباں کے ترکش کو جا چنتا یا کسی سسی کے ساتھ روحی کے سرد ٹیلے پر جا بیٹھتا.خیال کو حال میں واپس کھینچا اور نہر پہ گرتی بارش کی بوندوں سے بجتا آرکسٹرا سننے لگی__
بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کردل کے ایقان والے حصے کی دعائیں بھی گویائی پا گئیں__موسم گل کے آنے کی بہار رت لانے کی__مہندیوں کے رچنے کی چوڑیاں کھنکنے کی محبت کے مان رکھنے کی
تعلق نبھانے کی دعائیں.
تعلق نبھا جانے کی خواہش بھی کتنی عجیب ہوتی ہے نا__ جہاں آپ وہ باتیں بھی نظرانداز کر جاتے ہیں جو عام زندگی میں کوئی کہہ دے تو آپ مرنے مارنے پہ تل جائیں.لیکن کسی تعلق کے مان میں وہ بھی سہہ جاتے ہیں.اور بڑی بات یہ کہ یہ کمزوری نہیں بہادری ہوتی ہے.جب جھگڑوں سے اوپر اٹھ جاتے ہیں.جھگڑے کی بھی خوب کہی واصف علی واصف کہتے ہیں ناکہ "اگر تعلق رکھنا ہے تو پھر جھگڑا کیسا اور اگر تعلق نہیں رکھنا تو پھر جھگڑا کیسا؟؟
تعلق کی کیسی اعلی تعریف کر دی بلکہ روڈ میپ ہی دے ڈالا.دیر ہی سے سہی اب سمجھ لیا ہے یہ نکتہ.
"بھیگیں آج اس موسم میں"کے کانوں میں بجتے ہی وہ سارے بچے بھی نظرمیں آ گئے جوبارش میں چہروں پہ خوشی شادمانی بے فکری سجائے سڑک کو ہی گھرکیے بلکہ سڑک پر ہی گھرکیے ہوئےتھے__
کتنا خوبصورت تعلق ہوتا ہے نا بارش اور بچپن کا دونوں ہی اونچے سروں کا گیت ہوتے ہیں جن کو گاتے ہوئے کون کب بڑا ہوجاتا ہے.احساس ہی نہیں ہوتا..محسوس تب ہوتا ہے جب آپ گدھوں کی ریس کے گھوڑے بن کر مقابلے پر اتر آتے ہیں پھر وہی زندگی__ جس کے دن پریشان اور راتیں بھاری گزرتی ہیں.
اس خیال نے اپنے اردگرد بیٹھے چہرے کھوجنے پر مجبور کر دیا...بہت سے چہرے آنکھوں میں منزل کے خواب اور خوابوں کی تعبیر والی کتابیں میڈیکل،انجینرنگ،قانون بزنس کی آئی ٹی کی کتابیں کتابوں میں چھپے سپنے..
ایسے میں میری گود میں بھی دھری کسی نا کسی کتاب سے کبھی ارسطو، افلاطون، سقراط،مارکس میکاولی کوتلیہ چانکیہ تو کبھی کبھی اپنے آئیڈیلزم کے ساتھ ٹی ایچ گرین..گود میں دھری کتاب سے باہر نکل ساتھ والی خالی سیٹ پہ آ بیٹھتے ہیں_ میری ہی طرح محویت سے بارش کو تکتے ہوئے جیسے کہتے ہوں سارے فلسفوں منطقوں دلیلوں کے باوجود ہیں تو ہم بھی انسان ہی نا.
خوبصورتی محسوس کرنے والے رنگ دیکھنے والے خوشبو سانس کرنے والے.
اور میری حیرت پہ مسکراتے ہوں اور کہتے ہوں..پگلی تعلقات میں سیاستیں نہیں محبتیں چلتی ہیں..جیسے مارکس چپکے سے سرگوشی کر دے کہ انسانی تعلق کی اکنامکس محبت ہے خلوص ہے..جیسے روسو کہہ جائے کہ محبت، انسیت دنیا کا پہلا سوشل کانٹریکٹ تھی..یا چانکیہ کہتا ہو دلوں پر حکمرانی کرنی ہے تو محبت آئین کر لو..صلے جزا بدلے کی امید کے بغیر والی محبت.مشکل ہے ایسی محبت نا ممکن تو نہیں.میکاؤلی سرگوشی کرتا ہو اگر دی پرنس نصاب کا حصہ ہو سکتی ہے تو یقین مانو یہ بھی ممکن ہے..نہیں یقین تو آزما دیکھو.
لبوں پہ آنے والی بے ساختہ مسکراہٹ چھپانے کو پھر سے باہر دیکھنے لگی. سوچ کے سفر میں نہر کب کونسا موڑ مڑ گئی تھی اندازہ نہیں ہوا اب سڑک کے ایک طرف مضافاتی بستیاں تھیں. ٹہری ہوئی اور قدرے خاموش بستیاں.جیسے کسی نے ششش چپ! کہا ہو اور بستیاں شریر بچوں کی طرح آہستہ آہستہ باتیں کرتی ہوں.
مکانوں کے ساتھ ہی بارش کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا بادل اپنے رنگ سمیت ساتھ چل رہے تھے.مکانوں کے سلسلے کےاچانک ختم ہو جانے کی وجہ بھی سمجھ آگئی میرے ساتھ ساتھ ٹرین چلنے لگی ایک اور خوبصورت تعلق!!ٹرین کا سبز رنگ اپنے خون کے سرخ سے زیادہ اچھا لگنے لگا.جیسے کسی نے انرجی پھونکی ہو نئے اور بڑے خواب دیکھنے کی پھر ان کو تعبیر کرنے کی..قدرے ساؤنڈ پروف شیشوں کی بدولت ٹرین کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی اور مجھے لگا جیسے وہ بھی ٹہر ٹہر کے خاموش چلتی ہو کہ کہیں یہ منظر نہ ٹوٹ جائے..میں نے بھی آنکھیں بند کر کے سیٹ سے سر ٹکا لیا اس منظر کو آنکھوں میں محفوظ کر کے.
سحرش

No comments:

Post a Comment