Pages

Thursday 21 July 2016

آؤ!! اور تجدید عہد وفا کر لو


خالی ہاتھ، شکستہ دل، ہاتھوں پر سر گرائے، بال مٹھیوں میں جکڑے، پچیس چھبیس سالہ شخص پہلی دفعہ دیکھنے پرکسی شکستہ مقبرے کا خستہ حال مجاور لگا۔ جو اپنے حصے کی شب غم گزارتا ہوا تیرگی کا حصہ بن جاتاہے اور پھر اسی تاریکی کو اپنی کل کائنات سمجھ کہ سمجھوتا کر لیتا ہے۔
گنگا رام ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس شخص پر نظر پڑی تو کئی لمحے سکوت کی نظر ہوگئے
بظاہر نہ سمجھ میں آنے والی کوئی صورتحال نہ تھی۔دنیا کے مصروف ترین گائنی وارڈ کی ایمرجنسی کے باہر بیٹھا وہ کسی نہ سمجھی جا سکنے والی صورتحال کا حصہ  نہ تھا۔
اپنے لوگوں کی لاپرواہیاں، کوتاہیاں، مجرمانہ غفلتیں سب یاد ہونے کے باوجود نجانے کیوں اس انجان شخص کو سیڑھیوں پہ ہارا ہوا بیٹھا دیکھ کے دل میں درد سا جاگا۔جیسے کسی کی متاع لٹتےدیکھ کر جاگ سکتا ہے۔اس وقت شدت سے یہ احساس جاگا کہ صرف بے بس ہونا ہی دردناک نہیں بلکہ کسی بےبس کو دیکھنا بھی کم دردناک نہیں
اس کی شکست خوردگی نے گیٹ تک میرا ساتھ نبھایا۔وہاں سے جاتے ہوئے، اپنا کام کرتے بہت سی جگہوں پر جھک مارتے وہ شخص آنکھوں سے تو محو ہوگیا لیکن ذہن کے کسی گوشے میں اس کا بے بس سراپا چپک کر رہ گیا۔
ڈھلتی رات بستر پہ جب نیند کی برسوں سے جاری خفگی کم ہونے میں نہیں آئی تو آوارہ سوچوں نے رخت سفر باندھا۔دن بھر کے واقعات جزیات اور وہ شخص۔جس کے یاد آتے ہی بہت سی کہانیاں ذہن کے پردے پر آ کے ٹہرتی رہیں۔ وہ بھی یاد آئی مجھے جو ہر دوسرے ہفتے انباکس میں کسی کی شقی القلبی کا کوئی قصہ سناتی ہے۔ ساتھ اس شخص کو زندگی کا ساتھی بھی بتاتی ہے. اور میں اسے یہ بھی نہیں کہہ پاتی کہ ایسے ساتھ رہنے سے بندا اکیلا بھلا۔ جانتی ہوں بھیڑیوں کے اس معاشرے میں تعلیم و ہنر سے محروم لڑکی کیا بییچتی ہے
مجھے وہ بھی یاد آئی جس کی چنچل ہنسی کبھی مجھے بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا کرتی تھی۔ جو کہتی تھی میں پانچ منٹ نہ ہنسوں تو بے ہوش ہو جاؤں۔اب اسے میسج کرتی ہوں تو، ہوں، ہاں میں جواب دیتی ہے یا پھر یہ کہ انہیں سنجیدہ لڑکیاں پسند ہیں- میں یہ بھی نہیں پوچھ پاتی کہ "انہیں" یہ حق اختیار کس نے دیاہے کہ اچھے بھلے مکمل انسان کو اپنے سو کالڈ معیارات پر ڈھالنے پر تل جائیں..کس حق سے پوچھوں؟؟ وہ تو زیادہ بات بھی نہیں کرتی کہ بھرم نہ ٹوٹنے پائے۔میں چاہتے ہوئے بھی نہیں پوچھ پاتی۔
 کبھی انہوں نے سوچا تمہیں کیسے لڑکے پسند ہیں؟
 پوچھ کر کونسا تیر مار لوں گی؟ اس کا بھرم توڑوں گی اور بس
جب والدین ہی کہہ دیں وہاں ہی رہنا ہے۔ اسی سے نباہ کرنا تو کہاں کی آزادی، کیسی مرضی، کہاں کا حق اور کونسا احتجاج۔
زندگی کے دن کاٹنے ہیں ہنس کر یا رو کر۔سوچتی جاؤں اور سوال در سوال کے دائروں میں الجھتی جاؤں۔سوال سے یادآیا اب مجھے مکتب میں کوئی نہیں رکھتا..." اب میں مشکل سوال کرتی ہوں
ایسے تو ایسے ہی سہی۔ زندگی کی بے حسی سے دو سوال اور سہی کس طرح جیا جائے اور کس لیے؟؟
کسی کے خم ابروپر مسکرانا چھوڑ دینے کے لیے؟
کسی کی جنش لب سے ہر زمینی و زمانی رشتہ توڑ دینے واسطے؟؟
یا پھر تیس چالیس سال بعد اس سوال کی گونج سے منہ چھپانے کے لیے کہ ساتھ کاٹا ہے یا گزارا ہے
ویسے کبھی آپ نے سوچا کہ صرف روٹی کپڑے کے عوض شادی کر رہے ہیں آپ؟؟ اگر ہاں تو مت کرییے وہ لڑکی باپ کے گھر زیادہ آزادی اور دھڑلے سے لیتی ہے
صرف چھت دینی ہے تو مت کریں! یقین کریں باپ کے گھر میں تو بھائیوں کو بھی اس کے کمرے میں بلا اجازت گھسنے کی اجازت نہیں ہوتی
کیا کسی کی انا اتنی اہم ہو سکتی ہے کہ اسے تقویت دینے کے لیے ایک انسان کو جیتے جی مار دیا جائے
کیا آپ کو اپناآپ، گھٹیا اور چیپ نہیں لگتا ایک زندہ لاش کے ساتھ رہتے ہوئے
ان سوالوں کے جواب نہ پاکر، اندر کی وحشت سے گھبرا، کر رات کا آخری پہر ٹیرس پہ بے قراری کو کاونٹر کرتے گزرا۔اگلی صبح پھر اسی روٹ سے شارٹ کٹ اپناتے گزر ہوا تو وہی کل والا شخص گزری رات کی کرب ناکی اور کھو دینے کے خوف کا ملا جلا تاثر لیے شاپنگ بیگز میں کچھ ڈالے ہسپتال کے اندر جاتا ہوا نظر آیا تو خوشگوار حیرت اور امید کا  تاثر جاگا
مجھے لگا کل درد کی شدت میں شفاء کی امید بن کر اترنے والے نے اس شخص کو ایک اور چانس دیا ہے
جیسے کل کسی نے نیلے یاپنک کمبل میں لپٹی امید اسے تھمائی ہو اور کہا ہو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا یہ دیکھو تمہارے وجود کی شبہیہ دنیا میں تمہارا سرمایہ بن کے جینے آئی ہے
آؤ!! اور تجدید عہد وفا کر لو جس کے ضامن نے تمہیں اس عہد کی پاسداری کی نصیحت کی تھی.

No comments:

Post a Comment