Pages

Friday 2 November 2018

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان حصہ دوم


پہلے ہم نے سوچا اس قصے کو یہیں ختم کئے دیتے ہیں۔ پہلے بھی تو کئی بار ہم اگلی قسط کا کہہ کر بھول جاتے ہیں اس بار بھی سہی۔


لیکن ہمارے ضمیر نے یہ ہرگز گوارا نہ کیا کہ اس بار ایسی حرکت کی جائے۔ اب اس سے یہ مت سمجھ لیا جاوے کے ہمارا ضمیر ایسا ہی جاگتا رہے گا اب سے ہمیشہ۔ بھئی ہمارا ضمیر ہے سوئے جاگے تمہیں کیا ہے بھئی۔ ملک میں جمہوریت ہوسکتی ہے تو ہمارے اندر کیوں نہیں ؟ کیا اسقدر ڈکٹیٹر لگتے ہیں ہم آپ کو۔؟ اگر لگتے بھی ہیں تو ہمیں کیا۔



او تینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آخ ایسا معاملہ ہے اس بات میں۔



خیر بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا کی اور دوستوں کی بلکہ یہاں پائی جانے والی عظیم ہستیوں کی جن سے بلاک کھانے کے بعد ہمیں انٹرنیٹ کا بل سفل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو ہم دوستوں کو اوفینڈ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب ہی سے بلاک کھا بیٹھے ہیں کچھ ہمارے دوست مستقل مزاج بھی واقع ہوئے ہیں اور کچھ کی برداشت قابل دید ہے ہمیں مسلسل برداشت کیے ہوئے ہیں۔



کچھ ایسے ہیں ان کی وال پہ آنسہ انتہائی تہذیب کا مظاہرہ کرتی پائی جاتی ہیں۔ ہنسییے مت آنسہ کو آتی جاتی ہے تہذیب وہ الگ بات کہ آتی کم جاتی زیادہ ہے۔



خیر تو تذکرہ ہو رہا تھا دوستوں کا تو ایسا نہیں ہے کہ ہم مفلس ہیں۔ خاصے امیر واقعہ ہوئے ہیں۔



ہمارے دوستوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے دوستی کے لیے عوام قطار میں لگی کھڑی ہوتی۔



مثال کے طور پر ڈاکٹر رابعہ خرم درانی ڈاکٹر صاحبہ مصروف ترین پروفیشن سے وابستہ تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ رعنائی خیال والی بھی حد ختم ہے ان پر۔ تحریر ایسی نکھار کے لکھتی ہیں کہ جملہ تو جملہ لفظ یا حرف بھی ادھر سے ادھر ہوجائیں۔



لفظ ان کے سامنے یوں قطار باندھے کھڑے ہوتے ہیں جیسے وکیسینیشن کرانے کے لیے آئے ہوئے ننھے فرشتے ہوں جن کی قطار جوں جوں آگے بڑھتی ہو منظر کا حسن مانند پڑتا جاتا ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ فوٹوگرافی بھی کمال کرتی ہیں۔ بس ایک سوال ہے ان سے کیسے کرلیتی ہیں اتنا سب کچھ ایک ساتھ وہ بھی اتنی پرفیکشن سے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو ہر نئی ویب سائیٹ کی طبیب ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کی ان خاتون دوست کا تعلق ہے بھی ہمارے شہر سے۔ ایسی ہی رہیئے گا ڈاکٹر صاحبہ۔



اگلا تعارف لکھتے لکھتے رہ گئی کہ ان پر تو بات ختم کی جائے گی یعنی فل سٹاپ لگایا جائے گا جیسے پرانے وقتوں میں بادشاہ پچیس تیس سالوں بعد کوئی چج کی بات کر ہی لیتے تھے تو بعد، میں وہ قلم تڑوا دیا کرتے تھے کہ اب اس قلم سے اس سے اچھی بات ممکن نہیں بالکل ایسے ہی آج کے وقت کی شہزادی صاحبہ یعنی ہم یعنی آنسہ سحرش عثمان اس ذکر کے بعد قلم نہ بھی توڑ سکیں تو کیبورڈ ضرور بند کردیں گی۔ لہٰذا اس سے پہلے باقی دوستوں کا ذکر ضروری ہے۔



ایک نییر آپی ہیں۔ نیر تاباں ان کی وال پہ پٹواریوں کو بھی بہیو کرتے دیکھا تو انسانیت پہ میرا ایمان بحال ہو گیا کہ انسان چاہے تو کچھ بھی کرسکتا ہے اور اگر وہ انسان خاتون ہو تو سونے پہ سہاگہ ایک بار امی سے پوچھا تھا یہ سہاگہ سونے پہ کیوں ہوتا ہے اٹھنے پہ کیوں نہیں۔ امی نے بس گھوری ڈالی تھی خدا جانے اُس کا مطلب تھا خیر۔ نییر آپی کی وال پہ ہماری دلچسپی احمد والی پوسٹس اور کہانیوں تک ہی رہتی جو ایک دن نییر آئی بریانی و کڑاہی نیز نہاری مکس سے چکن قورمہ نہ بنا لیتیں۔ امی کو بھی وہ پوسٹ پڑھائی تھی نییر آپی امی آپکو شاباش دے رہی تھیں۔ اور ہمارے مخدوش مستقبل پہ فاتحہ پڑھ رہی تھیں۔ نییر آپی کو سات سالہ احمد کی کہانیوں میں اور نیئر آپی کی کہانیوں میں سات سالہ احمد کو آپ الگ نہیں کر سکتے دونوں اتنے لازم ملزوم ہیں کہ ان کی ہونے والی بہو کو یہ اعتراض ہو گا لڑکا مماز بوائے ہے۔ اچھا سوری ہماری بہت پیاری شنیلہ آپی جو وال پہ مدھو مکھیوں کو اکھٹا کرنے واسطے مدھو کی سیلفیز لگاتی اور بھگانے کے لیے اپنی تحریریں لگاتی ہیں۔



میں اکثر ان کے سیاسی لطیفے پڑھ کے سوچتی ہوں کہ یہ ہی لطیفہ کسی میل نے لگایا ہوتا ہے مخالفین ایک آدھ ہڈی تو برابر کر ہی دیتے۔ لیکن واہ رے سوشل میڈیا اور اس کے معجزے۔ قابل گردن زنی پوسٹ پہ بھی سو سو لائک لیتی ہیں۔ بلکہ ایک دن تو چھینکتے ہوئے 146146ابگجحلیکبط145145 لکھ بیٹھیں اس پر بھی کئیوں کے مرشدی استازی کے عہدوں پر فائز اشخاص نے ہنس ہنس کر پیٹ میں بل ڈال لئے اب ایسے بڑے ناموں میں آنسہ کیا کرتی ہنسنا پڑا۔ وہ تو انباکس میں آکر بتانے لگیں کہ یہ چھینک تھی ہم نے بھی یرحمک کہہ کہ ہنسی ڈیلیٹ کر دی۔ صرف یہ ہی نہیں کہ یہ سو دوسو کمنٹس لیتی ہیں۔



بلکہ ان کے کمنٹس گننے والے خواتین حضرات بھی انہی کی وال پہ موجود ہوتے ہیں۔ اور حیرت انگیز یہ کہ شنیلہ آپی کو معلوم بھی ہے ان کا اور شدید حیرت انگیز یہ کہ شہنیلہ انہیں پیاری بہنیں بھی کہتی ہیں اور سب سے حیرت انگیز یہ کہ ان کی بزتی کے سکرین شاٹس بھی، سنبھال کے رکھتی ہیں۔ کہیں لگاتیں نہیں کہ میمن ہیں اسے فضول خرچی سمجھتی ہیں اور جہاں حیرت ختم ہوجاتی ہے وہاں سے یہ بات شروع ہوتی ہے کہ ایسی تمام منکر نکیر آنٹیز کو اکھٹا کر کے ایک گروپ بھی بنائے بیٹھی ہیں۔ جہاں آج یہ تحریر پڑھ کے 146146گھمسان کی رن145145 پڑیں گی ان کو۔ کیونکہ ڈالینس لیا تو بات بنی۔



ثمینہ ریاض احمد سے کون نہیں واقف پٹوار خانے کے جملہ امراض کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ اور رب نے شفا بھی بہت دے رکھی ہاتھ میں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی آنکھیں ہیں۔ ارے ارے رکیے ہمارا مطلب ان کی عقابی نگاہیں پٹواری تو دور بلکہ بہت دور سے تاڑ لیتی ہیں پھر اس کے گھر جا کہ اس کی ٹکور فرما کہ آتی ہیں ذوق بھی بہت اعلی پایا ہے۔ فیس بک والے بہت جیلس ہوتے میری دوست سے ایک دن ان کی بھیجی وڈیو کی شہرت کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کی آئڈی بند کر دی۔ ثمینہ جی برا مت کرنا مارک زخر برگ جیلس ہوتا اور کچھ نہیں۔



مطربہ شیخ کسی کی وال پہ ہمیں ملیں ہمیں ان کی حرافہ رپورٹر اور فسادی رپورٹنگ بہت بھائی ایک دن ان سے پوچھا کہ سیاسی طور پر آپ کس کی فکر سے متاثر ہیں کہنے لگیں ایسے نہیں سمجھو گی تمہاری بوری بنوانی پڑے گی۔ ہائے ہائے ہم تو ایسا ڈرے کہ فوراً نعرہ لگایا بھائی کے بھگت ہیں جیسا کرو گے ویسا کریں گے۔ پیار دو گے پیار دیں گے۔ مارنے آؤ گے مار دیں گے۔ سیانی کڑی اے فوراً سمجھ گئی تب سے ہمارے درمیان اچھا 146146ورکنگ145145 ریلیشن شپ قائم ہے۔ جس میں وہ کام کرتی ہیں ہم آرام یعنی وہ دھڑا دھڑ لکھے جاتی ہیں ہم نیم دراز ان کی تحریریں پڑھتے لائک کئے جاتے ہیں۔ یہ واحد خاتون ہیں جو ہمیں ان باکس میں کئی بار کہہ چکیں کہ شاپنگ کرنے جا رہی کہو تمہارے لئے کیا خریدوں اب اپنے منہ سے ہم بتاتے کیا اچھے لگے گئے۔ آپ خود ہی لے لیجئے گا مطربہ ہمیں یقین ہے آپکی پسند بہت اچھی ہے۔



سیدہ فاطمہ الزہرہ ان کو شروع شروع میں بہت تنقیدی نگاہ سے دیکھا کئے ہم۔ اے لو جوان جہاں لڑکی جہاں جی میں آتا ہے منہ اٹھائے چلے جاتی ہے۔ نہ کوئی لجا نہ لحاظ یہ کوئی بات ہوئی بھلا شہر لے حالات کیسے خراب ہیں اور یہ مہارانی ہیں بیگ اٹھایا موبائل پکڑا اور چل پڑیں۔ اور آتے جاتے راہ چلتے انٹرویو بھی لیتے پھرتی ہیں لوگوں سے۔ آپ ہی کہئے یہ اطوار ہیں کوئی اچھی لڑکیوں والے؟



اس سے پہلے کہ ہم ججمنٹس پاس کرتے کرتے اندر ہی اندر چیپ جسٹس بن جاتے کسی نے ہماری آنکھوں سے تعصب اور تنگ نظری کی عینک اتار دی اور ہم نے خاتون کی تحریر کے ذریعے ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ نتیجہ نکالا۔ کہ ارے یہ تو ہمارے ہی جیسی ہے۔ لوگوں سے بیزار بھی اور ان سے تعلق نبھاتی ہوئی بھی (اب دیتی پھرو وضاحتیں) پتا نہیں کب یہ وال سے ان باکس اور وہاں سے واٹس ایپ پہ چلی آئیں۔ اور جانے کب رات کے ایک بجے ان سے مکالمہ ہونے لگا اس گرے ایریا پر جس کو ہم دن بھر برائٹ رنگوں سے پینٹ کئے رکھتے ہیں۔ اور جس پر بات کرنے والے کو ہم سخت قسم کی گفتگو سے نوازتے ہیں۔ ان سے ایسا تعلق ہے۔ چوڑیاں بہت پیاری پہنتی ہیں خود بھی پیاری ہیں حتی کہ سیلفی وڈیو میں بھی پیاری لگتی ہیں اور ہلدی کے اتنے فوائد گنوا چکی ہیں کہ مجھے گمان گزرتا ہے من و سلوی میں ہلدی تو ضرور اترتی ہو گی یا پھر جنت میں ہلدی والا دودھ قومی فروٹ ہو گا۔



صابن تک آرگینک استعمال کرتی ہیں۔ اور باربی کیو کھانے سے پہلے پوچھتی ہیں یہ بکرا سبزہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتا تھا کہ نہیں اتنی بار سمجھایا ہے بکرا ہاتھ لگائے بغیر کھا لیتا تھا سبزہ مرحوم بڑا ہی قانع تھا۔ لیکن مانتی نہیں۔ اور باربی کیو تک نہیں کھاتیں۔ حالانکہ بکرا نہ کھانے والوں کا حساب الگ سے ہو گا لیکن یہ نہی سمجھتیں۔ آئیے سب مل کر دعا کریں ان کی شادی شُد مسلمان سے ہو جو دن میں چار بار کھانا کھاتا ہو وہ بھی گوشت والا کھانا آمین

No comments:

Post a Comment