Pages

Sunday 16 December 2018

ہر خون معاف کرنے والا نہیں ہوتا



لکھا کرتی ہوں کہ نہ بھولے گے نہ معاف کریں گے۔
اور کیا لکھوں ایسا جو میرے اندر کی حالت کا ترجمان ہو؟
پچھلے چار سال سے میں لکھنے کی کوششوں میں ہوں۔
میرے فون کے لیپ ٹاپ کے جی میل کے گوگل ڈرائیو کے ڈرافٹس میں ان سب کی تصاویر محفوظ ہیں۔ میں ہر بار ان تصاویر کو دیکھتی ہوں اپنے زخم ہرے کرنے واسطے۔ میں اس زخم کو رستا ہوا رکھنا چاہتی ہوں۔ ان سب کی جدائی کا دکھ ایسا دکھ تو نہیں جس پر چند دن رو لیا جائے بس۔
یہ دکھ میری سانس کے ساتھ ختم ہوگا۔ جب تک یہ دل دھڑکتا ہے اُن معصوم چہروں کی روشنی سے جلا پاتا رہے گا۔
جب تک اس زمین پر میرے لیے امن روشنی امید دکھ اداسی محبت اور نفرت کے استعارے باقی ہیں تب تک اے پی ایس یاد ہے مجھے۔ اس کے بعد کا معاملہ اس کے ترازو میں رکھ دیا ہے۔ زندگی کے ہر ہر معاملے میں اس کے ترازو سے خوف آتا ہے چاہے معاملہ میری ذات کا ہو کوئی اسقدر دل دکھا دے کہ جینا مشکل دکھائی دینے لگے وہاں بھی اس سے ہمیشہ رحم آسانی مہربانی مانگی ہے۔ کبھی انصاف نہیں مانگا کہ جب وہ انصاف کرے گا تو کڑا انصاف کرے گا۔ اس کے ترازو میں کھجور کی گھٹلی سے اترے دھاگے جتنی بے انصافی بھی نہیں ہوگی۔
اے پی ایس کے معاملے میں میں اس سے ایسے عدل کی توقع رکھتی ہوں۔
چاہے اس عدل کی زد میں میں ہی کیوں نہ آجاؤں لیکن میرے بچوں کے معاملے میں عدل چاہیے۔ انصاف چاہیے اس معاملے میں تو میں خود کو معاف کرنے پر بھی تیار نہیں۔ کسی قاتل پلینر یا اس کے حمایتی کو کیا خاک کیا جائے معاف۔
معافی کے قابل بھی کہاں ہیں وہ۔ سارے درندے جنہیں خولہ کا نیا یونیفارم امیدوں بھرا بستہ نظر نہیں آیا۔
جنہیں ایمل آفریدی کی آنکھوں میں زندگی کی خواہش نظر نہیں آئی۔ جنہیں ایک سو چونتیس ماؤں کی گود نظر نہیں آئی ایسے درندے معافی کے قابل نہیں ہوسکتے ہرگز نہیں ہوسکتے۔
نہ صرف قاتل بلکہ حمایتی بھی قابل گردن زنی ہیں۔
میرے بچوں کے معصوم ذہنوں میں خوف کی آبیاری کرنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینا چاہیے۔
ایسی ہر آنکھ نوش ڈالنی چاہیے جس کی نظر میرے بچوں کے خوابوں پر ہو۔
ایسا ہر ذہن اکھاڑ دینا چاہیے جو میری نسلوں سے امید امن چھیننے کے متعلق کوئی سوچ بھی پالتا ہو۔
ہم جب بیلنس آف پاور پڑھتے ہیں یا امن اور جنگوں لے قضیے نمٹاتے ہیں تو پہلی اور آخری بات یہ ہی ہوتی ہے یہ لڑائی صلح پر منتج ہوتی ہے، ہر جنگ کا انجام مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس اٹل حقیقت کو پڑھنے کے جاننے سمجھنے باوجود میں سمجھتی ہوں میرے بچوں کے قاتلوں کا درد ناک انجام تک پہنچنا ہر صورت ضروری ہے اس کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے، جائیں۔
ہر خون معاف کرنے والا نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں ہر ذمہ دار یاد رکھے یہ خون معاف کیے گئے یا کمپرومائز کئے گئے تو ہماری نسلیں داغدار دامنوں کے ساتھ پیدا ہوں گی۔
ہمارے بچے خوف کے سائے میں بڑے ہوں گے۔ ہماری مائیں بہادر پیدا نہیں کر پائیں گی۔ ہمارے باپ جواں سال جنازوں کو کندھے دیتے دیتے تھک جائیں گے۔
اور خوف کے سوداگر موت بانٹتے بانٹتے نہیں تھکیں گے۔
یاد رکھئے موت حادثہ نہیں، المیہ بھی نہیں، لیکن کسی سے زندگی کا حق چھین لینا، طمانچہ ہے جو ریاست کے منہ پر پڑتا ہے۔ اس مادر پدر آزاد کی طرف سے جو یہ حق چھینتا ہے۔ اور اگر یہ حق کسی بچے کسی بزرگ کسی خاتون سے چھینا جائے، سماج کی کسی کمزور اکائی سے چھینا جائے تو طمانچہ پورے سماج کے منہ پر پڑتا ہے۔ ہر ذی شعور کے منہ پر پڑتا ہے اور اگر طمانچہ مارنے والے کا ہاتھ نہ پکڑا جائے تو اس طمانچے کی گونج نسلوں کو بہرا کردیتی ہے۔
میرے بچے میرے لیے پیمانہ ہیں وہ سرخ لکیر ہیں جس کے ادھر کھڑے لوگوں سے میں تعلق مختصر کرلیتی ہوں۔
یہ ہمارا آپ کا نہیں ہماری نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے یہ ہماری نسلوں کی زندگی کی بات ہے اس پر جاگتے رہیئے۔
ہمارے بچوں کے قاتل اگر زندہ ہیں تو کیوں زندہ ہیں اور اگر جہنم واصل ہوچکے ہیں تو ان کے حمایتی یوں کیوں منڈلاتے پھرتے ہیں۔
ان کے فکری حمایتی ابھی تک زبانیں دراز لیے کیسے بیٹھے ہیں۔
میں پچھلے چار سال سے یہ تحریر ایک دن کے وقفے سے لکھتی ہوں۔ کیوں کہ یہ دن میرے لیے کچھ اور چہرے بے نقاب کر جاتا ہے۔
میرے بچے میرے لیے پیمانہ ہیں وہ سرخ لکیر ہیں جس کے ادھر کھڑے لوگوں سے میں تعلق مختصر کرلیتی ہوں۔ اس دن اگر مگر چونکہ چنانچہ لیکن کرنے والے ہر شخص پر لعنت بھیجتی ہوں میں۔ ظالموں کے ہر حمایتی کو اس ظلم کا ساتھ دینے کی مزید دعا دیتی ہوں کہ جب بدلے کا وقت آئے تو ان سب کو کسی شک و شبے کی گنجائش یا فائدہ نہ مل سکے۔ اس دنیا میں اگر وہ اپنی منافقت سے بچ بھی گئے تو حشر میں رب ان کو منافقوں کے انجام سے دوچار کرے۔ میرے بچوں کا خون وہ پیمانہ ہے جس سے قاتلوں کا ہر حمایتی پہچانا جاتا ہے۔ یہ وہی حمایتی ہیں جو سارا سال امن کے محبت کے داعی بنے رہتے ہیں جن کے دل درندے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ سب کوفیوں سے بھی بدتر ہیں کہ ان کے دل بھی مظلوم کا ساتھ نہیں دیتے۔
جب تک مجھ میں زندگی اس کی رمق اس کی خواہش باقی ہے تب تک اے پی ایس کے ہر ذمہ دار سے نفرت باقی ہے۔
اور یہ نفرت اتنی شدید ہے کہ حشر میں اگر اس نے موقع دیا گفتگو کا تو کہوں گی ان سب کے دلوں کی سیاہی ان کے چہروں پہ مل دے۔ ان رو سیاہوں کو ان کی رو سیاہی کا امتیاز بخش کر اس افراتفری میں ان کے لیے مشکل بڑھا دے۔
ان سب کو ظالموں کی حمایت کرنے پر اپنی حمایت سے محروم کردے۔ میں اس سے کہوں خولہ جو تجھ سے سوال کرتی ہے نا کہ میں کس جرم میں ماری گئی اس سوال کی گونج سے ان حمایتیوں سے ان۔ کی سماعتیں چھین لے۔ یہ اپنی ہی زبانیں کاٹ کھائیں اور اپنے الفاظ ہی نہ سن پائیں۔ ان کو اتنی کڑی سزا دے اگر پھر کبھی تو نے دنیا بسائی کبھی کوئی تو تیری سزا کے خوف سے کسی قاتل کسی ظالم کو کوئی حمایتی نہ مل سکے
شائد یہ تحریر مختصر نہ ہوسکے شائد ایسی تحریروں کو ختم نہیں ہونا چاہیے ہر ظالم کے انجام تک ایسی تحریروں کو مکمل نہیں لکھا جانا چاہیے۔
ظالموں کا ہر حمایتی جان لے نہ ہم بھولے ہیں نہ معاف کیا ہے۔ کیونکہ نہ بھولا جاسکتا ہے نہ معاف کیا جاسکتا ہے۔
کیسی تحریر ہے کہ کسی شاعر کی زبانی کہی کوئی بات یاد آرہی ہے نہ کسی ادیب کا کوئی قول۔ بس بے ربط خیالات ہیں روتا ہوا دل ہے۔ اور بے بسی میں ڈوبے آنسو وہ جو ان باپوں کے حوصلے کے سامنے لایعنی ہیں جنہوں نے اپنے جواں سال بیٹے دفنائے تھے۔ وہ ان دوستوں کے احساسات کے سامنے بونے ہیں جنہوں نے خالی ڈیسک کے ساتھ نئی زندگی شروع کی تھی۔
اور مائیں؟؟ ماؤں کے جذبات کون لکھے وہ جو بچے کے پیچھے جہنم بھی چلی جائیں جو اولاد کے لیے زم زم نکلوا دیں اور جو رب کی رضا پر بھی دریا میں بہائیں تو پیچھے بہن کو دوڑائیں کہ دیکھو لخت جگر اب کہاں پر ہے۔ ماؤں کے جذبات کون لکھ سکتا ہے وہ صرف محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اور محسوس وہ تو کرے گا ہی جس کی محبت کا استعارہ ہے ماں دنیا میں۔ کیسے نہیں کرے گا محبتوں کو نامراد نہیں ٹہراتا۔ یہ میرے ایمان کا حصہ ہے رب ماؤں کی خاطر ظالموں کے انجام ہمیں ضرور دکھائے گا۔ کیونکہ ہم نہ بھول سکتے ہیں نہ معاف کرسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment