Pages

Friday 2 November 2018

جیسی روح ویسے فرشتے۔


جیسی روح ویسے فرشتے۔

سنا تو آپ سب ہی نے ہوگا ہم نے خود پر بیتتے دیکھا ہے۔ جیسی روح ویسے ہی فرشتے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ شکر خورے کو شکر دینے والے اور ہر صورت شکر کا انتظام کئے رکھنے والے رب نے روحوں کی اقسام بنائیں تو فرشتوں کی بھی بنائیں۔ "اکارڈنگلی ٹریٹ" کرنے کے لیے۔ 
ہم سی بے چین روحوں پر مضطرب فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جو مسلسل حرکت کا انتظام کئے رکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو شائد بے چینی کا آخر دیکھنے کا جی چاہنے لگے اور ہم اس کی حد پار کر جائیں اب تو زندگی کا بہانہ ہے اور سچ بتائیں تو اتنی فرصت میسر ہوئی کبھی تو شائد بنجارے کو بلا لیویں لادنے واسطے۔
قصہ مختصر اور تمہید طولانی کے مترادف بات گو ذرا سی تھی لیکن رش میں ہم خاموش دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سکارف کے ڈیزائن میں ڈوب کر ابھرے تو یہ تحریر ہوچکی تھی۔ ہم نے بھی عافیت جانی اور رات کے اس پہر جب چاند ستارے بھی سو رہے ہیں ہم نے اسے قرطاس پر اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے پہلے کہ صبح ایک نئی مصروفیت لائے ہم اسے لکھتے ہیں۔
آنسہ بہت ساری منگنیوں شادیوں عقیقوں سے فرصت کے لمحوں میں امی کے کچن کی ہیڈ شیف کے فرائض ادا کرتی ہیں۔
اور گھر میں اترنے والی ساری رحمتوں کے لذت کام و دہن کا تعلق آنسہ کے فرائض منصبی سے ہے۔ لہذا آنسہ اب ری فلنگ والے سارے ٹرکس میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پرانے کوفتوں کو ری نیو کرنے کے طریقوں سے بھی واقفیت حاصل کرچکی ہیں۔
"رحمتوں" کے درمیانی وقفہ کو ہم اگلی نسلوں کی "تربیت" میں وقف کرتے ہیں۔ جس کا بچہ سکول نہ پڑھتا ہو ٹیوشن والی ٹیچر نہ رکھتی ہو سیپارے والی باجی بھی نہ پڑھاتی ہو وہ آنسہ کی "گوناں گو" صلاحیتوں پر سوالیہ نشان بن کر سارے خاندان کی "عزت" کو بٹہ لگانے لگ جاتا ہے۔
اب ہم اتنے بے حس تو ہو نہیں سکتے اور نہ اتنے نالائق کہ ایک بچے کو نہ پڑھا سکیں۔کسی بچے کی استانی صحیح انگریزی میں غلط گفتگو کر کے بچے کی عزت افزائی کا سامان کرتی ہو اور مسلسل کرتی ہو تو اس ٹیچر کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی بھی آنسہ کو دی جاتی یے۔
یہ سب نہ ہو رہا ہو تو مضطرب فرشتہ اجزائے ترکیبی میں ردو بدل کا حکم لے کر زمین پر اترتا ہے اور کسی کے دانت کان گھٹنے کے درد میں ہم یاد آتے ہیں۔اور سارے بزرگوں اور بچوں کی ماؤں کو لگتا ہے کہ ہم اپنی چرب زبانی سے ڈاکٹر کو ان کا مسئلہ بہت اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں ان سے بھی کہیں اچھا تو ہم بھی عبایا پہن سکارف لے کر چل دیتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ پہروں اکیلے تنہا ادس بیٹھے رہنے کہ حسرت لئے اس جہان فانی سے کوچ کرجاویں گے ہم۔ بقول شاعر۔
جس روز ہمارا کوچ ہوگا پھولوں کی دوکانیں بند یوں گی۔
شیریں سخنوں کے حرف دشنام اور بے مہر زبانیں بندہوں گی۔
اب تو آرتھو پیڈک ہم سے پوچھتا ہے آپ کیا کرتی ہیں۔ ہم : ہم ماہر امور ہڈی توڑ ہیں۔
ڈینٹسٹ پوچھتا ہے تو کہتی ہوں آپ کے لیے مریضوں کا انتظام کرتی ہوں جو فری ہو اس کی بتیسی ہتھیلی پہ دھر دیتی ہوں۔
کوئی ٹیچر پوچھتی ہے کہ آپ ان کی کیا لگتی ہیں تو کہہ دیتی ہوں میں ان سب کو فارغ لگتی ہوں۔
اور کوئی "رحمت" پوچھ لے کوکنگ کیسی لگتی ہے کہتی ہوں زہر۔
لیکن افسوس یہ سب دل میں کہتی ہوں کہ۔تہذیب نے حسن بیان چھین لیا آنسہ سے۔ اور شارپ ایجز کو فائل کردیا آسان لفظوں میں کہوں تو یوں کہ سارے کس بل نکال دیئے۔
لیکن اس المیہ کی خبر ابھی خود کو بھی نہیں ہونے دی۔ کہ اس نقصان پر تعزیت کو فرصت چاہیے۔اور
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔
سحرش۔

No comments:

Post a Comment