Pages

Saturday 17 November 2018

تو امیر حرم میں فقیر عجم


نعت کیسے لکھی جا سکتی ہے۔ پڑھی بھی کیسے جا سکتی ہے؟ مجھے ان شاعروں پہ رشک آتا ہے جو نعت لکھ لیتے ہیں آپ صلی علیہ وسلم کی۔

محبت کے اظہار کے لیے ہمیشہ ہی الفاظ کم پڑ جاتے ہیں میرے پاس۔ ایمل کے لیے کچھ لکھنا چاہوں تو پہروں اس تحریر کے جملے درست کرتی رہتی ہوں۔ ابراہیم کے لیے لکھنے بیٹھی تو پہلے ہی پیراگراف کے بعد بس ہوگئی۔ امی ابا کے لیے لکھتی ہوں تو اپنی بدتمیزیوں پر ختم بیٹھتی ہوں بات۔

خدا جانے لوگ محبت کا خالص اظہار کیسے کر لیتے ہیں میں تو صرف یہ کہہ کے رہ جاتی ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔
اور میں واقعتا بتا نہیں سکتی۔ کیسی بے بسی ہے۔ محبت میں بتا نہ سکنا کہ محبت ہے۔ اور کتنی ہے۔
اور یہ محبت آپ صلی علیہ وسلم سے محبت__اس کااظہار کیسے ممکن ہو۔نعت کیسے لکھ لیتے ہیں لوگ؟
آپ صلی علیہ وسلم کی محبت میرے ایمان کا حصہ نہیں میرا مکمل ایمان ہے۔ کامل ایمان
اگر رب نے دائرہ نہ کھینچ دیا ہوتا
اور محمد تم میں سے کسی کے باپ نہیں۔
تو میں لکھتی کہ مجھے ویسی محبت ہے جیسی فاطمہ رضی اللہ کو تھی کی اپنی موت کی خبر کو خوشخبری جانا۔
لیکن یہ رب کا کھینچا دائرہ ہے سو میں اظہار کے لیے بھی اسی کا بتایا طریقہ عین ایمان ہے۔ کہ اسے اپنے حبیب کے سامنے ترش لہجے اونچی آوازیں پسند نہیں۔اسے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ اس کا حبیب کچھ کہے اور لوگ سننے میں کوتاہی برتیں۔
اس کا حبیب ہے نا۔ اسے اس کے خالص محبت چاہیے پوری توجہ نیت کا پورا خلوص اور جذبوں کی ساری گہرائیاں۔ محبتیں ایسی ہی ہوتی ہیں شائد۔
اب ایسی محبت میں توہین کی اجازت گنجائش نکلنا تو درکنار توہین کرنے والے کے لیے سزا سخت سے سخت تر ہونی چاہیے۔ کیوں کہ دنیا کا قانون بھی یہ ہی ہے۔ کسی کے سینسٹو ایریا میں گھسنے والا اپنے ہر عمل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔
لیکن یہ وہ محبت تو نہیں جس کا اظہار ہونا تھا۔ رب تو کہتا ہے آپ صلی علیہ وسلم سے محبت آپ صلی علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ اس محبت کا اظہار تو آپ کے حکم پر سر تسلیم خم کرنا۔ ہم ویسے تو نہیں۔
یہ محبت تو ایمان کا حصہ ہے نا۔ بلکہ کامل ایمان۔ یہ۔محبت ہی تو مکمل کرتی ہے ایمان کو دنیا کو آخرت کو۔ اور کیسی بد نصیبی ہے کہ یہ ہی محبت خام ہے۔ جس محبت کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن بننا تھا وہ ہی خام ہے۔
رب سے میری بہت سی التجاؤں میں ایک یہ بھی ہے کہ حشر میں وہ بہت سی باتوں پہ آپ کے سامنے میرا پردہ رکھ لے۔ آپ جو سراپا دعا سراپا رحمت ہیں۔ آپ کی دل آزاری ہوگی ایسے کسی بندے کے لیے شافع بن کر۔
ابا نے کہا تھا اس پر کچھ مت لکھنا۔ اس معاملے میں چپ رہنا۔ مشعال خان کا واقعہ ہوا تو بھی انہوں نے کہا تھا ہر معاملے میں رائے دینی بھی نہیں چاہیے۔
ایسے جملے تو انہوں نے کبھی نہیں بولے۔ اس میل بے بی اوبسیسڈ سوسائتی میں بیٹیوں کو شعور آزادی دینے والا شخص بہادری کے جس معیار کو اپناتا ہے وہ بتایا سمجھایا نہیں جاسکتا۔ لیکن جب سارا معاشرہ ہی وحشی ہوجائے تو کیا کریں ماں باپ؟ ڈر نہ جائیں تو کیا کریں رائے پر قدغن لگا دیں یا پھر جوان بچوں کے دزدیدہ لاشے اٹھائیں۔
المیہ نہیں کہ عدم برداشت کی اس حد تک پہنچے ہوئے وحشی سماج کا حصہ ہیں ہم۔۔المیہ تو یہ ہے کہ ہم محبت کے نام پر کرتے ہیں یہ سب۔
محبت تو اس کائنات کا کوڈ ہے نا__ پاسورڈ رب کی یونیورس کا۔ یاد ہے نا اس نے اپنے محبوب کی محبت میں تراشی ہے یہ کائنات۔ محبوب بھی وہ جو سراپا محبت ہے(صلی اللہ علیہ وسلم)۔ جس کی محبت نعمان بن ثابت کی شاعری میں چھلکتی تھی تو عمر فاروق کے سینے میں دہکتی تھی۔
جس محبت میں ابوبکر صدیق بنے۔ جو کہا کرتے تھے آپ صلی علیہ وسلم کے چہرے سے روشنی نکلتی ہے جو میری آنکھوں میں ٹھنڈک بھردیتی ہے۔وہ محبت جو عثمان غنی کی حیا میں تھی اور حیدر کرار کی للکار میں۔
جس میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ کو پسینہ ہیرے سے شفاف لگتا تھا۔
ایسی ہوتی ہیں محبتیں__اور محبوب بھی کیسا؟
جو عائشہ صدیقہ کے لہجے میں مبہم ناراضی پہچان جایا کرتے تھے۔ جو خدیجہ رضی اللہ کا ہار مال غنیمت میں دیکھ کر آنسو نہ روک پائے۔
جو رضاعی بہن کو جنگی قیدی نہ بنا سکا۔
جو ماں کی قبر کے نشان پر جا کہ بچوں کی طرح گھٹنوں میں منہ چھپا کہ روئے۔ جیسے کوئی معصوم فرشتہ غم چھپا نہ پاتا ہو۔
وہ جو سجدے میں قیام میں رکوع میں امت کے لیے سراپا رحمت سراپا دعا بنتا ہو۔
وہ محبوب جو بار بار کہتا ہو م ی ں اس قتل سے بری ہوں۔ میں مسلمان کے نا حق خون سے بری ہوں۔
جو جنگ میں بھی حکم دیتا ہو خوبصورتیوں کو تباہ نہیں کرنا کھیتی نہی اجاڑنی کسی کا باغ نہیں جلانا۔ کسی مزدور سے رزق نہیں چھیننا۔اور جو پناہ میں آجائے اس کی حفاظت کرنی ہے۔
ہم کیسے عاشق ہیں کیسے محب ہیں؟
نہ یہ محبت ہماری تلواریں میانوں میں ڈالتی ہے۔نہ یہ محبت ہمیں مسلمان کو آزار پہنچانے سے روکتی ہے۔ نہ ذمی پر ظلم ڈھاتے ہوئے اس شافع محشر صلی علیہ وسلم کا خیال آتا ہے۔
نہ یہ محبت ہمیں اپنے گناہوں پہ شرمسار کرتی ہے۔
وہ محبوب صلی علیہ وسلم تو فرما تے ہیں مومن فحش گو نہیں ہوتا۔کیا ہوئی پھر محبت جو ہم ایک ہی سانس میں اس کا نام لیتے ہیں۔اسی سانس میں لغویات کہتے ہیں۔
یہ محبت ہمارا ہاتھ کیوں نہی پکڑتی۔ہمارے حلق کیوں نہیں خشک ہوتے۔
محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ محبت میں تو آپ تسلیم و رضا پر نہ آئیں تو محبت کا ہونا ہی مشکوک ہوتا ہے۔ اور اس کا دعوی خام۔
محبت کرنے والے تو نقصان نہیں کرتے کسی کا۔
محبت کرنے والے تو محبوب کی نسبتوں سے بھی غضب کا لگاو رکھتے ہیں۔
پتا ہے جب رسول خدا صلی علیہ وسلم جب محبت سے صدیق اکبر یار غار کا ذکر کرتے تھے تو فرماتے تھے عائشہ رضی اللہ کا باپ عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے محبت جو تھی۔ محبت کے اظہار کا ایسا کوئی طریقہ کیوں نہیں سوجھتا ہمیں؟
جسمیں روز حشر ہم اٹھائے جائیں تو شرمندگی کا لیول کم ہو۔
میرے پاس جنت اور جہنم کے پاس نہیں ہیں۔لیکن یہ جانتی ہوں ان اعمال کی سزا بھی پالی تو جنت میں محبوب کو فیس نہ کر پائیں گے۔
وہ جس کسی کا رکشہ سائیکل بائیک دوکان توڑی تھی۔ جس پر ارتداد کے فتوے لگائے تھے وہ جو ان کی محفل میں بیٹھا ہوا۔اور رب کے حبیب اسے اپنے پیالے سے پانی پلاتے ہوں۔ ساتھ کہتے ہوں رب راضی ہوگیا تو کیسے جا پائیں گے اس محفل میں؟
اور اگر ان صلی علیہ وسلم کی محفل میں ہی نہ جا پائیں گے تو بتائیے جنت ہوگی؟
یثرب والے کی قربت کے بغیر والی بھی کوئی جنت ہوتی ہے۔
وہ نہ ملے تو ان کے دوست کیسے گوارا کریں گے؟
جہاں آپ کے ٹری ہاؤس سے حیدر کرار کے محل کی بلند برج بھی نہ دکھائی دیں وہ کیسی جنت ہوگی؟
جہاں فاروق حق و باطل میں تفریق کرنے والی بصیرت سے سرفراز نہ کریں۔جہاں آپ ان سے کہہ بھی نہ پائیں عدل کے جھکتے میزان کے ہر ہر جھکاؤ پر آپ یاد آئے تھے ہمیں۔وہ بھی بھلا ہوگی کوئی جنت۔
جہاں عثمان غنی رضی اللہ کو بتا نہ سکوں گی آپ کا نام میرے نام کا حصہ ہے_میرے لئے وہ جنت تو نہ ہوگی۔
جہاں عائشہ صدیقہ سے پوچھ نہ پاؤں جب وجہ کائنات آپ سے محبت کرے تو کیسا لگتا ہے ؟ جب کوئی آپ کے والد کو آپ کا باپ کہہ کر پہچانے تو کیسا فخر محسوس ہوتا ہے۔
بھلا ہوتی ہے کوئی ایسی محبت؟ اور ایسی جنت؟
شائد اس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے تھا۔بہت سے لوگوں نے اسی لئے نہیں لکھا ہوگا۔ لیکن میں شافع محشر کے سامنے کیا کہتی جو وہ پوچھ لیتے کہو کیا کیا تھا۔تب کیا کرتی جو رب کہہ دیتا اس کے حق میں سفارش ہولڈ کرتا ہوں۔ اس کو لفظ دیئے تھے ان کا حساب چکتا کرلوں۔
تب ____تب کیا جواب دیتی
اب سوچا ہے اسے کہوں گی جی جلا کر سر راہ رکھا تھا ربا۔۔لوگ مانے نہیں تونے مجھ سے صرف کوشش کا ہی حساب لینا ہے نا۔۔دیکھ لے کرلی کوشش اپنی سی۔

1 comment:

  1. بس آپ کا حسن نظر ہے۔اللہ ہمارے ساتھ ٓپ کے گمان کےمطابق فیصلے کرے ۔دنیا و آخرت میں بھلائی کا معاملہ ہو

    ReplyDelete