Pages

Sunday 23 December 2018

امبانی شادی سماج اور ہم۔




پچھلے کچھ ہفتوں مس امبانی کی شادی کا غل ہے۔ غل اس لئے کہ جب بھی نیوز چینل لگایا جائے۔ مس امبانی کی۔نیوز یو ٹیوب بار بار اپڈیٹیس دے رہی کہ کہیں ہم کچھ مس نہ کردیں۔
ایک میگزین پڑھا کرتے ہیں ہم اس میں فلمی ستاروں کی خبریں بھی آتی ہیں پچھلے تین ہفتوں سے وہاں امبانیوں کا قبضہ ہے۔ اور کارڈ سے لے کر چارٹرڈ طیاروں تک ہر شئے کی وڈیوز اور تصاویر تک ہم تک واٹس ائپ کے ذریعے برابر پہنچتی رہی ہیں۔ ہر قسم کے تبصروں اور تجزیوں کے ساتھ۔
اس سارے ہنگام میں جو تبصرہ سب سے دلچسپ اور جامع تھا وہ ایک مس عثمان نے کہاکہ "لگدی فیر وی غریب پئی اے"
لیجئے ابا کا اتنا خرچا کرا کے ساڑھے چارسو کڑوڑ کا گھر لے کر جہیز میں خاتون پھر بھی غریب لگ رہی تھی۔ یعنی فائدہ کوئی نہ ہوا اس شادی کا۔
یوں تو بظاہر یہ ایک جملہ ہے "لگدی فیر وی غریب پئی اے"(لگ پھر بھی غریب رہی ہے) لیکن درحقیقت یہ پورے برصغیر کی نفسیات کا خلاصہ ہے۔
ہمیں ہر صورت بس امیر لگنا ہوتا ہے۔ 
چاہے اس کے لیے الٹا لٹکنا پڑے۔
ایک بار دوران شاپنگ ایک سیلز گرل جب ہمیں ایک فینسی برینڈ کی لپ سٹک لینے پر مکمل قائل کر چکیں تو ہم نے کہا وہ دراصل ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔اس کے تاثرات جو تھے سو تھے ہماری بہنوں کے چہروں پہ جو وحشت آنکھوں میں جو غصہ تھا وہ ناقابل بیان تھا۔ایک نےتو ایسی زور سے پسلیوں میں کہنی ماری کے چار دن ٹکور کرتے رہے۔ اور ایک صاحبہ تو ہمیں ڈس اون کر کے اگلے سیکشن کی طرف چلتی بن گئیں۔
ہم سوچتے رہ گئے کہ ہمارے بارے میں درست کہا جاتا ہے کہ ہم ہیں بھی غریب اور سوچ بھی غریب ہے۔ ہم نے احتجاج کرنا چاہا کہ کیوں ضائع کئے جائیں اتنے پیسے اس میں تو ہم چار لپ سٹکس خرید لیں گے۔ بہنوں نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن اسے کیوں بتایا کہ پیسے نہیں ہیں۔ بندا غریب ہو لیکن لگے تو نہیں۔
ہم ناک آؤٹ کردینے والی اس منطق کے سامنے کیا ہی بولتے چپ ہورہے۔
یعنی بس ہر صورت مالی طور پر بہت امیر نظر آنا ہے۔تاکہ سماج میں عزت ہو آپکی۔ یعنی حد ہےاوہےاور بے حد ہے جب تک اصراف نہ کرلیا جائے یہ۔سماج آپ کی عزت نہیں کرے گا۔
جب تک آپ نمائش اصراف نہیں کریں گے آپ کو انسان ہی کنسیڈر نہیں کیا جائے گا۔
آپ اپنے ہی جیسے کئی انسانوں میں احساس محرومی تقسیم کریں گے تو ہی یہ مرعوب اور احساس کمتری کا مارا ہوا سماج آپکو انسان کے درجے پر فائز کرے گا۔ وگرنہ آپ کیڑے مکوڑے ہیں۔ اور کیڑے مکوڑے کیڑے مکوڑوں کی عزت نہیں کیا کرتے۔
آپ کو "عزت دار" بننے کے لیے امیر لگنا پڑے گا بھئی۔
آپکو ہر صورت زیادہ کیرٹس والا گولڈ پہننا ہے چاہے اس کے رنگ سے الجھن ہوتی رہے آپ کو بھاری بھرکم شرارےغرارے پہننے ہیں جن کا مہنگا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا تربوز کا سرخ اور خربوزے کا میٹھا ہونا ہے دوسری صورت میں تینوں چیزوں کا مقدر کوڑے دان کے سوا کچھ نہیں۔۔
اسقدر لگنا اوبسیسڈ ہیں ہم۔
آپ انٹلیکچوؤل نہیں ہیں لیکن آپ کو انٹیلکچوئل لگنا ہے۔
آپ کمیپیٹینٹ نہیں ہیں لیکن آپ کو لگنا پڑے گا
آپ پروفیشنل نہیں ہیں نہ بننا چاہتے ہیں لیکن اس سماج کےلئے آپکو بننا پڑے گا۔
آپ کو انگریزی میوزک نہیں پسند لیکن آپ کو سننا پڑے گا وگرنہ کیا اچھے لگیں گے آپ۔؟؟
آپ کو جیولری نہیں پسند لیکن آپ کو پہننا پڑے گی۔اب خالی ہاتھ خالی کان کیا خاک اچھے لگیں گے۔
آپ خوش نہیں ہیں 
آپ مطمئن نہیں ہیں لیکن آپ کو خوش اور مطمئن لگنا پڑے گا۔
آپ اپنے ذاتی "مسائل" سوشل میڈیا کہ زینت نہیں بنانا چاہتے لیکن آپ کو بتانا پڑے گا وگرنہ "کلاسی" (کلاسک) نہیں لگتا نا۔
ہر روز ہم ایک اعلان تو کرتے ہی ہیں کہ یہ سماج رہنے کے قابل نہیں رہا اور ہر روز ہم سب اس سماج کو مزید نہ رہنے کے قابل بناتے رہتے ہیں۔
امبانی شادیاں دیکھ دیکھ مرعوب ہوتے ہیں احساس کمتری پالتے ہیں پھر اس کو ختم کرنے کے لیے گدھوں کی دوڑ میں سرپٹ دوڑتے ہیں۔ کامیاب ہوجائیں تو اپنے ہی جیسے کئی لوگوں میں احساس محرومی بانٹنے لگتے ہیں۔
ہماری شادیاں عقیقے پیدائش کے مواقعے کوئی بھی موقع ایسا نہیں ہوتا جہاں ہم انسانوں کی طرح بہیو کرتے ہوں۔
ہم نے خانے در خانے اتنے درجے بنا رکھے ہیں اور ان درجات۔سے باہر تو ہم کسی کو منہ بھی نہیں لگاتے اور ہماری زندگیوں کا مقصد صرف اور صرف اس درجہ بندی میں اگلا درجہ حاصل کرنا ہے۔
کیا ہم دائرے کے اس سفر سے کبھی باہر بھی نکل پائیں گے یا پھر یونہی آنکھوں کے اطراف چمڑے کے ٹکڑے لگائے اپن دھن میں۔سرپٹ دوڑتے رہیں گے۔
کوئی تو ہو جو ہم۔سب کی آنکھوں پر بندھی یہ پٹی کھول کر ہمیں دائروں کی مسافت سے باہر نکالے۔
اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا کوئی تو سیکھے۔
کوئی تو ہماری مرعوب ذہنی کا علاج کرئے۔
لیکن کوئی کیوں کرے گا اور کیسے کرے پائے گا جب تک ہم خود نہ کرنا چاہیں گے۔ 
اور ہم کرنا ہی نہیں چاہتے۔
آئیے ہم مس امبانی کے لہنگے کی سستی کاپی ڈھونڈتے ہیں کہیں سے۔

No comments:

Post a Comment