Pages

Friday 2 November 2018

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان


ہم ایک ایسی خاتون کو جانتے ہیں ہلکا سا زیادہ ہی جانتے ہیں جن کے ہاتھ کی بنی چائے پی کر ہم ایک بار چائے سے تائب ہوئے تھے۔ کل ان کی وال پہ نہاری و پائے ارہر کی دال کی ریسپیز دیکھنے کو ملیں۔ یہ ہی نہیں ان کی بائیو میں کوکنگ ڈرائیونگ شاپنگ اینڈ سوئمنگ آر پیشنس بھی لکھے دیکھ کر ہم پانی گلے کو لگا بیٹھے تھے جو ان کی کوکنگ کی تصاویر دیکھ دیکھ کر منہ میں بھر آیا تھا۔ ہم نے کھانستے ہوئے وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔


ایک صاحب ہیں عام زندگی میں چیپ کے عہدے پر فائز ہیں۔ کزن کا لفظ موئے انگریزوں نے ایجاد کردیا ہمیں۔ وگرنہ کم از کم انہیں تو چول ہی کہا جاتا۔ بلکہ اتہاس کے پنوں میں ان کا نام بہت ساری چولیات کے موجد کے طور پر لکھا جاتا۔ خیر ان کا یہاں ایک ہی کام ہے چوبیس گھنٹے آن لائن رہ کے فیمیلز کو سٹالک کرنا اور جہاں کوئی ذرا غیر معیاری پوسٹ دکھے اس کو 147خاندان کے بڑوں148 کو بذریعہ سکرین شاٹ رپورٹ کرنا۔



(نوٹ یہ معیار بھی ان ہی کا سیٹ کیا ہوا ہے۔ یلو جرنلزم کے اس عمدہ مظاہرے پر کم و بیش سب سے بلاک ہونے کے بعد آجکل وہ بے بی ڈال سونے کی بن کر پیتل کی دنیا پر تبرا کرتے پائے جاتے ہیں۔ آنسہ نے دو ایک بار کی رپورٹنگ کے بعد وال ملاحظہ کی تو دعائیہ کلمات، پازیٹیویٹی والی حد تھی۔ نوجوان نسل کے بگاڑ کے اسباب پر پورا واپڈا ہاؤس ہی ڈال رکھا تھا موصوف نے۔ غیبت کے خلاف پوسٹس دیکھنے پر آنسہ کے اندر کا فسادی جاگ اٹھا۔ لمبا چوڑا سوال نما کمنٹ کیا اب انہوں نے اپنا نام کانٹینٹ ناٹ ایولیبل رکھ لیا۔۔۔ خدا جنے کیوں۔



ایک اور موصوف ہیں۔ ہمہ وقت ہمیں پولیٹکل سائنس اور پالیٹکس پڑھاتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کے بہت بڑے چیمپئن ہیں۔ یوں جانییے خلاف جمہوریت تو چھینکتے بھی نہیں۔ ان سے ایک بار پارلیمانی جمہوریت پر اسائنمنٹ بنانے کا کہا تھا تب سے ہمیں بدتمیز کہتے سمجھتے ہیں۔۔ کیا اتنے برے ہیں ہم۔ گو ہمیں بدتمیز کہلانے پر بھی کوئی مسئلہ نہیں لیکن کم از کم وجوہات تو بتائی جائیں صرف اسائنمنٹ کا کہنے پر بدتمیز ہی کہہ دینا کہاں کا انصاف ہے۔چلیے یہ بھی تسلیم ہم نے یہ فرمائش نما درخواست انورٹڈ کاماز میں کی تھی۔ لہجے میں کل عالم کی معصومیت جو انہیں طنز لگا تھا بھر کے یور سپیشیلٹی بھی کہا ہوگا۔ لیکن پھر بھی___ آپ سوشل میڈیا پر بھی تو بائیس کروڑ کے جمہوری چیمپئن بنے ہی ہوتے ہیں نا۔



خیر اب آپ لوگ سمجھ جائیے نا کہ ان کا رویہ ہی سراسر غلط تھا آنسہ کی ہرگز کوئی غلطی نہ تھی۔ اب کاپی پیسٹ دانشور کہہ دینا ایسا بھی اوفینسو نہیں کہ اگلے کو آپ بدتمیز ہی کہہ دیں۔آپ ہی فیصلہ کیجئے۔



چلیے ایک اور صاحب کا قصہ سنئے۔ رشتہ پوچھنے سے احتراز کہ ہماری تحریریں حساس تقریبات میں ایز ریفرنس ٹو دی کانٹیکسٹ استمال کی جانے لگی ہیں اور شاعر ایسا منہ پھٹ کہ ساری بات صاف ہی لکھ دیتا ذرا جو 147گل وچوں ہور اے148 کہنے نوبت آئی ہو۔ یوں سمجھ لیجئے۔ ذکر خیر والے موصوف ہمارے ہمسائیوں کے انکل ہیں۔



انگریزی ادب تو ان پر الہام کی طرح اترا ہے۔ حتی کہ موصوف کھانستے بھی انگریزی ادب میں ہیں۔



رابرٹ فراسٹ کو خود اپنی اتنی نظمیں یاد نہ ہوں گی جتنی انہیں یاد ہیں۔ بلکہ جتنی انہیں یاد ہیں اتنی تو فراسٹ نے لکھی بھی نہ ہوں گی۔



ہمیں ریکوسٹ موصول ہوئی تو ڈی پی دیکھ کر جو تراہ نکلا تو تین چار گھنٹے بعد آن لائن آئے۔جب انہیں ایڈ کیا تو صبح دوپہر شام سپہر رات آدھی رات دیگر ویلا اور پیشی ویلا کے حساب سے انگریزی شاعری ہمارے سر پہ برسنے لگی۔ ہم نالائقی کے سبب گوگل ٹرانسلیٹر سے پوچھ پوچھ کر سراہتے رہے۔ لیکن آخر کب تک آخر کو ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا جو ویسے بھی چھوٹا ہے پٹوارخانے کی سوچ کی مانند۔



تو ایک دن عادت سے مجبور ہوکر ہم انہیں مشورہ دے بیٹھے پنجابی اردو ادب پڑھنے کا۔ کہ شاعری میوزک آرٹ اپنی زبان میں ہو ماں بولی میں ہو تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ گویا جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ۔



پہلے تو وہ ہماری نالائقی پر چپ رہے ہنس دیے پر جب ہم مسلسل انہیں فرنگی شاعروں کے باندھے مضامین اردو پنجابی میں سنوانے لگے تو ہمیں بلاک کردیا۔ ہم نے ریڈنگ گلاسیز اتارے چائے کا کپ بنایا اور زیر لب وہ ماہیا گنگنایا۔۔



میں کوئی کفر تولیا؟ نہ جی۔



خیر یہ تو کچھ ناگفتنی سے قصے تھے۔ لیکن داد دیجئے ناگفتنی قصوں پر بھی فسانے بنا دیئے ہم نے۔



تو یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت اچھے محترم لوگوں سے تعارف و تعلق بنا۔ جن سے مسلسل سیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت سی خواتین جنہیں یہاں دیکھ کر میرا انسانیت پر ایمان بحال ہوا۔



ایک تو ان میں ہماری دوست عظمی ذوالفقار ہیں کاش دانش والے ان سے ہماری تحریروں کی ایڈیٹنگ کرایا کریں۔ کیونکہ یہ ہمیشہ ایگزیکٹلی وہ لفظ لکھتی ہیں جو ہم اپنی دانست میں لکھ چکتے ہیں اور آٹو کوریکٹ ہم کو شٹ اپ کہہ کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ خیر۔ باقی دوستوں پر روشنی بہت جلد ڈالی جائے گی کہ اسوقت ٹارچ بجھ رہی ہے ہمارا جی اچاٹ ہوگیا۔ اور کوئی نیا میوزک بھی کہیں سننے کو جسے کانوں میں لگا کر ہم رنگوں کی خوشبو کی باتیں کریں۔ ہمارے سارے دوست رنگ سے ہیں خوشبو جیسے۔

No comments:

Post a Comment