Pages

Tuesday 30 August 2016

تصویر کہانی


تصویر دیکھی ہے کبھی؟؟
حسرت وغم
یاس خوف کی زندہ تصویر؟
کبھی قصور پوچھتی آنکھوں میں
جھانکا ہے تم نے؟؟
تم تو صاحب اختیار ہو.
بلا کا ضبط بھی رکھتے ہو.
"بغاوتیں روند ڈالتے ہو"
آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے.
یہ عزم بھی دہراتے ہو.
سنو!!
مجھے ان دہرے عذابوں سے نکالو اب.
میں اپنے گھر کے بچوں کو
نظر بھر کے دیکھوں تو__
خود ہی پریشاں رہتی ہوں.
وہ چلتے ہوئے ٹھوکر 
کھاتے ہوئے ہچکی
پیتے ہوئے غوطہ لگا بیٹھیں
تو میری سانسیں اٹکتی ہیں.
میں خود کو خود ہی ٹوکتی رہتی ہوں
کہ بچوں کو یوں نظر بھر کے نہیں تکتے.
میرے اندر کا "بدعتی" بھی
کہیں انگڑائی لیتا ہے.
"نظر کے بد نماء قصے
اندر ہی اندر دہراتی،دہلتی رہتی ہوں
میں چپکے سے سورتیں پڑھتی.
تصور کو ہی پھونکتی رہتی ہوں.
کہ یہ بچے.
خدائے لم یزل کے ننھے سفیر بچے.
سراپا محبت زرا سے شیریر بچے.
وہ جن کے خوشنماء قہقہے
مجھے پہروں مسرور رکھتے ہیں.
وہ جن کا پہلا آنسو "فرسٹ" مسکراہٹ.
وہ پہلا "سالڈ"
وہ پہلا لمس
وہ پہلی بات.
وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں
بابا اور ماما کہہ جانا.
کہنا پھپھو وہ خالہ.
ان کی چیزوں کا حوالہ
میں سوشل میڈیا پر پوسٹتی
داد لیتی ہوں.
سنو!!
میں اب ِان بچوں کو دیکھ کر
خوف کے احساس کو جھٹلا نہیں پاتی.
میں ڈر کے عفریت کے پنجے میں.
صبح سے شام شام سے رات کے.
اس آتے جاتے چرخے میں.
بچے تو بچے ہیں
معصوم سے ننھے فرشتے.
کسی کی آنکھ کا تارہ.
کسی کی صبح کی خواہش.
کسی کی رات کے آخری
پہروں میں مانگی ہوئی دعا کوئی.
وہ رب کی رحمتوں
نعمتوں کی انتہا کوئی.
وہ بچہ شامی ہو
فلسطینی،کشمیری
افغانی یا لبنانی.
سنو جب وہ بچہ کبھی
پانی نگل جائے.
یا بمباری میں ڈوبے تو.
میرا دل ڈوبنے لگتا ہے.
میں پہروں اپنے بچوں کو بھینچے.
ان سے بچپن چھنتی رہتی ہوں.
میں اُن بچوں کی آنکھوں کے
چہرے کے، سرد تاثر دیکھ کر..
اُس کے خوف سے سرتاپا جلتی ہوں.
وہ جو کہتا ہے ظلم پر خاموشی بھی ظلمت ہے.
ظلم برداشت کرنے والا بھی مجرم ہے.
وہ جو کہتا ہے میں منصف ہوں.
سنو میں عدل سے ڈرتی ہوں.
ترازو کی زد میں آنے سے ڈرتی ہوں.
بہت مدت سے میں ان دہرے عذابوں کی شب غم میں ڈھلتی ہوں.
مجھے ان سے رہائی دو.
میرے بچے میرے جگنو.
مجھے دے دو
میں ان کے لیے خوشیاں تراشوں گی..
تم ایسا کرو
اپنے اختیار کی سولی پر
میرے بچے نہ چڑھاؤ.
سحرش.

No comments:

Post a Comment