گلزار کی اک نظم جیسا
پورا منظر دیکھا ہے.
دھیمے دھیمے لہجے میں
خوشبو خوشبو باتیں تھیں.
دور کسی پگڈنڈی پر
بھولی بھالی لڑکی تھی.
ان دیکھا سا منظر تھا.
دھوپ بارشوں جیسی تھی.
بھیگے بھیگے وعدے تھے.
کاغذ میں لپٹی تحریر کوئی.
تحریر حسین اک سپنا تھی
خوشبو جیسی زنجیر کوئی.
ٹہرے ٹہرے __وہ دونوں.
جیسےکسی شام پر کوئی
سونا پگھلا کر ڈال جائے.
سورج ڈوبتے ڈوبتے
گوری کے گالوں میں شفق
آنکھ میں تارے بھر جائے
بوند بوند گرتی محبت.
سر شار کسی کو کر جائے.
ویسا ہی اک منظر تھا.
پورا پورا ادھورا سا.
کہانی میں بھی حقیقت جیسا.
حقیقت میں کوئی افسانہ
سحرش
No comments:
Post a Comment