Pages

Sunday 1 May 2016

کوڑے والا بچہ پڑھنا چاہتا ہے


بھلا سا موسم تھا۔ آتی سردیوں اور جاتی گرمیوں کا۔ خزاں اپنی آمد کا اعلان کر چکی تھی۔ شامیں خاموش اور لمبی ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اور خدا جانے کیا قصہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ سے خزاں کی شامیں پسند رہیں ہیں۔ لوگوں کو بہار کی گلابی شامیں پسند ہوتیں ہیں۔ معتدل موسم، معطر فضاء ،ہر طرف پھول اور رنگ اور ایک ہم ہیں کہ بہار کی آمد ہی بوکھلا دیتی ہے۔ البتہ خزاں کی لمبی خاموش سنہری  شامیں ہمیشہ مسحور کرتی رہی ہیں۔ شائد لا شعور میں کہیں یہ احساس رہتا ہے کہ اس کہ بعد موسم سرما آنے والا ہے۔ لمبی راتوں والا موسم، جس میں کمرے کی کھڑکی پہ پردے گرائے، ہیٹر چلائے، کانوں میں کوئی مدھر دھن لگائے، ہم کتابیں پڑھا کرتے ہیں۔جنگ اور امن کی کتابیں، لڑائیوں کہ قصے، حکمرانوں اور بادشاہوں کی کہانیاں۔
ایسی ہی ایک سہ پہر میں کتابیں پھیلائے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھی کہ ڈور بیل کی ناگوار سی آواز پر جھنجلا کر اٹھی اور بغیر پوچھے گیٹ کھول دیا۔ پھر احساس ہوا اماں ہمارے بارے میں صحیح کہتی ہیں کہ بنو ہر وقت ہوا کہ گھوڑے پر سوار مت رہا کرو۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا گیٹ کھلا تھا اور باہر ایک آٹھ نو برس سال کا نین نقشے سے پکا افغان بچہ کھڑا تھا۔ ملگجا حلیہ، بلکہ اگر صاف ہی کہہ دوں تو گندے ہاتھ پاؤں۔ پوچھا کیا نام ہے؟ بولا مجاہد۔ مجاہد زیر لب دہراتے ہوئے میں اس کی سبز کانچ سی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔ جہاں تلخی ایام کا قصہ بہت واضح تھا۔ مجھے مراکبے میں جاتا دیکھ کر قدرے اونچی آواز میں بولا ،باجی کوڑا۔۔ باجی کوڑا دے دو۔
بے ساختہ سوال کر بیٹھی کہ کب سے آ رہے ہو؟ وہ جانے کیا سمجھا سر جھٹک کر بولا
 دو سال سے باجی۔
جاتے جاتے عادت سے مجبور پوچھ بیٹھی ۔پڑھتے ہو؟ آٹھ سال کا بچہ پلٹا، سبز ٹوٹے کانچ میں نفرت اتنی واضح تھی کہ میرے لئے کھڑے رہنا مشکل ہو گیا۔ اگر وہ کچھ منٹ تک مجھے دیکھتا رہتا  تو مجھے یقین ہے کہ اس کی نفرت کا بوجھ نہ سہار سکتی میں۔ لیکن چند لمحوں کہ بعد اس نے رخ پھیر لیا اور جب بولا تو صرف یہ۔  باجی ٹائم کھوٹا مت کرو۔
گویا دو سال۔۔ کسی نےسوویت یونین کے سوشل ازم سے لے کر ایکسپینڈنگ نیچر اور نجی جہاد سے لے کر کیپٹلزم تک ہر شئے لا کر جیسے سینے پہ دھر دی ہو کہ لو ، تم لوگ کر لو۔ جنگیں اور امن کے معاہدے۔ جن کو بچانے کے دعوے ہر شخص کرتا پھر رہا تھا۔ وہاں آٹھ آٹھ سال کہ بچے وطن سے دور ہجرت کا درد سینے میں چھپائے کوڑے سے رزق تلاش رہے ہیں اور میں جدید جنگ کی تھیوری پڑھتے ہوئے سوچتی ہو کہ شکر خدا جو قدیم یونان میں پیدا نہ ہوئی جہاں جنگ کی کوئی اخلاقیات ہی نہ تھیں۔
کسی نے چپکے سے جیسے دل میں چٹکی بھری ہو اور کان کہ پاس سسکا ہو کہ جنگ اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔
کمرے میں واپس آتے ہوئے ہر شئے سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ جیسے مجاہد کی آنکھوں کے ٹوٹے کانچ کا کوئی ٹکرا سینے میں پھنس گیا ہو۔
انٹرنیشنل ریلیشنز کی پام این پرکنس( Palmer & Perkins) اور چندر پرکاش کی کتابیں باقاعدہ منہ چڑاتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔ گویا الائنس، کاؤنٹر الائنس، وار، کانفلیکٹ مینجمنٹ، بفر زون وغیرہ سب اس ایک جملے کی سامنے لا یعنی ہوں کہ باجی وقت کھوٹا نہ کرو۔۔۔
وقت ہی تو کھوٹا کر دیا تھا چارہ گروں نے۔۔۔ جنہیں چارہ گری سے گریز تھا۔۔۔۔
جو ہر کام کرنے پر تیار تھے سوائے ہمدردی کے۔ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اندر کی انٹرنیشنل ریلشنز کی سٹوڈنٹ بیدار ہوئی اور دلیلوں پر دلیلیں۔ قومی مفاد سے لے کر جنگ کی اہمیت۔ طاقت کے توازن اور اجتماعی سیکورٹی جانے کیا کیا۔۔۔لیکن وہ ٹوٹے کانچ سی سبز آنکھیں۔۔۔اف
وہ سب معصوم سے چہرے،تلاش رزق میں گم ہیں
جنہیں تتلیاں پکڑنا تھیں، جنہیں باغوں میں ہونا تھا
رات اور اگلے دن کی دوپہر جیسے تیسے کاٹی۔ تیسرے پہر گیٹ کی اطلاعی گھنٹی پر گیٹ کھولا تو مجاہد اپنی زخمی آنکھوں سے گھور رہا ہو جیسے کہہ رہا ہو ٹائم کھوٹا نہ کرو
کیا تم پڑھو گے؟؟ میں نے جلدی سے پوچھا مبادا وہ کل کی طرح سر جھٹک کہ چلتا نہ بنے۔۔
نہیں یک لفظی جواب۔۔۔
اور کسی نے چپکے سے کہا
لہجے سرد ہو جائیں تو پھر پگھلا نہیں کرتے
اور مجھ پر دھن سوار تھی اس سرد لہجے کو پگھلانے کی۔۔۔بھلا یہ کوئی عمر تھی اس کی۔ نفرتیں پالنے کی اور اگلی نفرتوں نے کیا دیا ہے ؟سوائے لاشوں اور قبروں کے۔
اگلے تین دن اس کے خالی ڈبوں والے شاپر میں ٹافیاں بھی جاتیں رہی اور ہم خاموش گفتگو کرتے رہے۔۔۔چوتھے دن چاکلیٹ شاپر میں نہیں ہاتھ میں تھمائی۔ معصوم بچہ جیسے اسی کا منتظر ہو بولا مجاہد لکھنا سکھائو ہم کو۔
ٹوٹل گیارہواں دن تھا۔۔۔کچی پینسل، کاپی، ربڑ، شاپنر مجاہد کے تھیلے میں اس کے ساتھ جاتے تھے۔
بارہوھں دن گیٹ پر اس کی آنکھوں میں نفرت نہیں آشنائی دیکھی۔ جیسے کہہ رہا ہو اتنے برے بھی نہیں تم سب۔۔
جاتے ہوئے کاپی کا صفحہ ہاتھ پہ دھر گیا۔ کھولا، پڑھا۔ تو ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں مٹا مٹا سا۔ مجاہد جان کابل ۔ لکھا ہوا تھا اور مجھے لگا، دنیا کی ساری کتابوں کے سارے حرفوں سے معتبر یہ ایک جملہ ہے۔ جس میں خود کو جاننے کے سفر پر کسی نے پہلا قدم رکھا تھا۔ جس میں وطن کو لوٹ جانے کی امید تھی، اپنے ویرانے آباد کرنے کا عزم تھا۔۔۔
دو ہفتوں کے داخلی جائزے کے بعد واپسی ہوئی تو پتا چلا مجاہد جا چکا تھا۔۔ جس طرح وہ اچانک آیا تھا، اسی طرح غائب بھی ہو گیا ۔لیکن جاتے جاتےمجھے ایک بات سمجھا گیا کہ ۔
محبت فاتح عالم۔

No comments:

Post a Comment