Pages

Wednesday 25 May 2016

شہر_فیض_واقبال_اور_ہمارا_برگروں_سےحسن_سلوک‬


یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہم جینز کے ساتھ رنگ برنگے کرتے پہن کر، جاگرز چڑھا کے، سولو کی رسی تھام کے پورے شہر کی ایک ہی سڑک ناپا کرتے تھے۔ آتے جاتے سنئیر سیٹیزنز پر مسکراہٹیں اچھالتے، ان کی کہانیاں سنتے خود کو ان کی آنکھ والی حیرت میں دیکھا کرتے تھے۔چھوٹے بچوں سے بھی دوستی تھی اور سولو کو گود میں لینے کہ چکر میں وہ نہ صرف ہمیں دیکھتے ہی پینگ خالی کر دیا کرتے تھے بلکہ اپنی باسکٹ بال ٹیم کا کیپٹن بھی بنانے پر تیار تھے لیکن ہم نے چونکہ ہمیشہ سے ایک اصول یاد رکھا کہ بندا سانپ پال لے پر خوش فہمی نہ پالے۔ سو باسکٹ بال میں اپنی مہارت اور باسکٹ تک ہاتھ کے نہ پہنچنے کے یقین نے ہمیں ہمیشہ عاجزی اختیار کیے رکھنے پر مجبور رکھا۔اورچونکہ "بن ساجن جھولا جھولوں میں وعدہ کیسے بھولوں ٹائپ کوئی درد سر لاحق نہیں تھا ہمیں۔ سو اپنے اعزاز میں خالی کی گئی پینگ پر پورے استحقاق سے بیٹھتے۔ چشم تصور سے پیروں کے نیچے شوریدہ سر ندی چلاتے۔ کالی گھٹا سی زلف لہراتے اور پھر گاتے یہ سماں پیارا پیارا یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی۔
لیکن!! آدم کی اولاد ہوں۔ ایک سی روٹین میں جنت بھی ملتی تواکتا اٹھتی اور یونہی بے سبب آتے جاتے موسم کے فرشتوں سے الجھا کرتی۔لہذا اس روٹین سے بور ہونے لگتی تو کوئی پھڈا ڈال لیتی۔ روٹ بدل کے واک کرتی ہوئی دوسرے گیٹ سے کالونی میں داخل ہوتی اور ایم پی( ملٹری پولیس) کا ڈیوٹی پر موجود سپاہی پوچھتا کون ہیں بی بی؟ اور میں ناک سکور کے کہتی چونڈہ کے پرے سے آئی ہوں۔ انڈین ایجنٹ اور وہ زیر لب مسکرا کے گیٹ کھول دیتا۔ ہم بھی اندر آتے ہوئے سوچتے کہ یہ بھی اندر سے سردار ہی ہے میری طرح..خیر۔ اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم جو کہانی آگے سنانے جا رہے ہیں اس کی وجہ سے آپ ہم سے بد گمان مت ہوجائیے گا۔ ہم دل کہ برے نہیں بس طبعیت ہلکی سی فسادی پائی ہے
تو کہانی وہاں سے شروع ہوتی تھی۔ جب کوئی ہم سے ملنے فیض کے شہر میں آتا اور میزبانوں کی محدود سی لسٹ میں ہم وہ میزبان ہوتے جو مہمانوں کی بیرونی اینٹرٹینمنٹ کے ذمہ دار تھے۔لہذامہمان ہمارے پاس پہنچتے ہم نہایت سلیقے سے چاے کافی پلاتے۔کھانے کی میز پر تمیز کا عمدہ مظاہرہ کرتے کہ مہمان دل میں سوچتا کہ لڑکی کو شہر کا پانی راس آ گیا ہے۔سولو کا تعارف کراتے بوگن ویلیا پیپیتا چاروں رنگ کے گلابوں اور موتیے کے متعلق آگہی دیتے اور جب ٹیرس پہ کھڑے ہو کے پچھلی گلی کہ تیسرے گھر کی نیلی ٹینکی کو سند باد کا گیٹ بتاتے تو سب خوشی خوشی ہمارے ساتھ چلنے پر راضی ہوجاتے۔ہم بھی انہیں فل تیار کر کے کہتے کہ نہیں چل پائیں گے۔بزبان "تم سے نہ ہو پائے گا بیٹا" تو سب کی غیرت پر یہ جملہ تازیانہ بن کر لگتا۔ وہ تو ذرا سولو کا لحاظ باقی ہوتا وگرنہ سب ہم سے پہلے گیٹ پر موجود ہوتے۔لہذا ہم سے کہا جاتا کہ سولو کو باندھا جائے اور ہمیں سند باد لے جایا جائے۔ہم تابعداری کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہوئے سولو کو باندھ کر اس کے ساتھ ہائی فائیو کر کے نکل کھڑے ہوتے...اور پھر حکم سفر دیا تھا کیوں کہ مصداق ہم جو چلنے لگتے تو چلنے لگتے فاصلے یعنی پچھلی گلی کا تیسرا گھر دو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہوجاتا...اور وہ برگر جو تین دفع کچن میں پانی پینے چلا جائے تو چوتھی بار میں پین کلر لے کے الٹا پڑ جاتا ہے۔ اسے دو کلومیٹر چلنا پڑے، تو اس کی حالت زار کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں۔ہم بھی راستے میں جو بٹر سکاچ چلاتے تو کانوں کے کیڑے مار کے ہی دم لیتے۔
سندباد کا تعارف اور پائریٹ بوٹ کی باتیں...جی بلکل صحیح سمجھے آپ وہی ہوا میں ڈولتی عمودی افقی لہراتی کشتی جس پر بیٹھنا کبھی بھی واقعہ نہیں رہا ہوگا__ پہلی بار میں ہم بھی یہ سمجھے تھے اور ہمیشہ کی طرح جا نکر پہ براجمان ہوئے تھے۔ پر برا ہو اس ظالم کا اس نے جو کشتی جھلائی تو ہمیں اس پر فضائی ٹائی ٹینک ہونے کا گمان ہوا کہ ابھی ٹوٹا کہ ابھی ڈوبا۔ کشی ہوا میں معلق ہوتی اور تیس سیکنڈ کہ لیے سیدھی کھڑی ہوجاتی اور ہم جیسے عاقبت نا اندیش جو نکر پہ بیٹھے ہوتے۔ وہ قیامت کا منظر اپنی چشم تر کہ اندر دیکھ لیتے۔بچپن کی پڑھی ہوئی موت کا منظر اپنی مجسم صورت میں سامنے کھڑی ہوتی اورآپریٹر خوامخواہ ہی ملک الموت کا میڈیا پارٹنر لگنے لگتا۔ جو فیسینٹ کر کے موت بانٹ رہا ہے۔خیر جیسے تیسے جان کنی میرا مطلب ہے جھولے کے دس منٹ ختم ہوئے۔ ہم بال بکھرائے ہوش اڑوائے۔حواس باختہ ۔اللہ توبہ کرتے نیچے اترے اور آخری سیڑھی تک آنے سے پہلے ہم فیصلہ کر چکے تھے...پس جو کوئی برگر اس جھولے سے محروم رہ گیا تو آنا بی سمجھنا حق میزبانی ادا نہ ہوا۔اب کچھ بچپن کے شوق ہمارے ایسے تھے کچھ ہماری اماں کی ہمارے متعلق ایڈورٹیزمنٹ کہ لوگوں نے کبھی ہمارے خلوص کو نہ سمجھا۔ ہمیشہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ حق ہاہ...کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔مختصر یہ کہ ہم آب حیات بھی دیتے تو اس پر زہر کا گمان کر کے عوام نہ پیتی لہذا ہم نے بھی بٹھانے کے اصرار اور لے جانے کی ضد میں پڑ کے خود پر شکوک کا یقین کرانے کی بجائے بین الاقوامی تعلقات کا طریقہ کار اپنایا اور آنے والے معززین کو بتایا کہ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کے سند باد جا اس اڑن کھٹولے پر بیٹھا جائے
طریقہ واردت یوں ہوتا کہ ہم سارا راستہ جھولے کی خوفناکی کا سچا واقعہ من وعن سنا دیتے اور ساتھ مشورہ.۔مکمل پرخلوص مشورہ دیتے کہ مت بیٹھیو...پر برگر بھی وہ مرد ہی کیا جو ڈر جائے۔ حالات کہ خونی منظر کے مصداق پہنچتے ہی اس پر بیٹھنے کہ درپے ہوجاتا۔ہم اچھے میزبان کی طرح چپ چاپ ٹکٹس لے آتے۔خود تو امیون ہو چکے تھے لہذا خوف سے زیادہ جوش میں ہوتے...جھولا چلتا اور تیسرے چوتھے منٹ میں ہمارے اردگرد  کلمہ طیبہ کا ورد سٹارٹ ہوجاتا..جو چھ کلموں چاروں قل آیتالکرسی اور دیگر دعاؤں پر ختم ہوتا۔
اور تو اور دو تین لوگوں نے تو رب سے سارے گناہوں کی معافی بھی مانگ لی کہ اللہ کل سے پانچ نمازیں پوری..ایک خاتون تو یہ تک کہہ اٹھیں اللہ میاں آئندہ سے ٹیسٹ والے دن پیٹ درد کا بہانہ نہیں لگاؤں گی۔ایک صاحب کہنے لگے اللہ جی امی کی پسند کی بہو لاؤں گا اس مصیبت سے نکال...اور ایک خاتون دھاڑیں مار مار کہ روتی بھی جاتی  اورساتھ کہے بھی جاتی...اب کسی کی غیبت نہیں کروں گی امی سے لڑائی نہیں کروں گی ۔مجھے اس جھولے سے بچاؤ۔
جب سب "مسافر" توبہ تائب ہو چکے ہوتے۔ تو جھولا رک جاتا اور عوام ایسے نیچے اترتی گویا صحرا میں گلستان نظر آ گیا ہو...یوں برگر اگلی صبح ہم سے ملے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے اور ہم پھر سے جاگرز چڑھا...سینئر سٹیزنز کی سٹوریاں سننے چل پڑتے
سحرش

No comments:

Post a Comment