Pages

Wednesday 11 May 2016

Melted away all my fears


پردے کہ پیچھے کھڑکی سے باہر ویسا ہی منظر ہے ٹہرا ہوا ہے۔ رات کہ سیاہ پروں نے ہر چیز ڈھانپ رکھی ہے۔ میرے ننھے ہمساے بھی چپ چاپ سورہے ہیں۔ کمرے کہ اندر بھی چیزیں ویسی کی ویسی ہیں۔ بک شیلف اس پر کتابیں، کتابوں کی ترتیب،میز پر دھری پینسل باسکٹ، دروازے پر لگی گلیٹر شیٹ سے بنی  تتلیاں، پنکھا اور میرے خیالات سب ایک سے...جی ہاں خیالات بھی۔سوچتی ہوں کسی سائیکا ٹرسٹ کو مل لوں کیونکہ جوں جوں رات کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ توں توں میرا ذہن فسادی خیالات کی آماجگاہ بننے لگتا ہے۔
جی میں آتا ہے کہ لانگ کوٹ خرید کر ہیٹ پہن کر ایک آنکھ ڈھانپ کر پائیریٹ( بحری قذاق) بن جاؤں۔دور کسی جزیرے کو اپنا مسکن بنا لوں اور پھر آتے جاتے جہاز لوٹا کروں۔ہوا سونگھ کر بتا دیا کروں کہ قافلے آنے میں کتنی دیر ہے۔ سمندر کے دل میں موجزن طوفان آنکھ میں آنے سے پہلے جان جایا کروں۔اور پھر روٹین سے اکتا جاؤں تو ویکیشنز پہ کسی دوور افتادہ چار پانچ سو آبادی والے گاؤں چلی جاؤں اور وہاں کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کہ بعد ون ڈرنک فار ایوری ون فرام سٹرینجر کا نعرہ بلند کیا کروں۔کسی ان دیکھی تہذیب کے ثقافتی میلے میں چلی جاؤں۔ اجنبیوں سے باتیں کروں ان کا میوزک سنوں
کسی ختم ہوتی تہذیب کی لوک کہانیاں سنوں۔ محبت کہ گیت سنوںاور واپس لوٹ آؤں
یا پھر اسکیمو بن جاؤں۔ اپنا ایک ایگلو بناؤں۔ تین السیشینز اور تین جرمن شیفرڈ پال لوں۔ جو میری کارٹ گھسیٹا کریں اور میں سنو لیپرڈز کی زندگی دیکھا کروں۔
کسی اجنبی سے شہر کے اجنبی راستوں کو خود پر مسکرانے دوں اس اجنبیت کو ختم کرنے کہ لیے گلیوں کی مصروفیت کا حصہ بن جاؤں۔ پھر اس آشنائی سے گھبرا کر کسی بن میں جا بسرام کروں...وہاں سے رخت سفر باندھوں تو "روٹین" کی بے حسی پر میں اپنی بے نیازی مار کر کسی دریا کہ کنارے جا بیٹھوں اور پھر صدیوں وہاں بیٹھی رہوں۔ یہاں تک کہ زندگی میری سرد مہری کے در کھٹکھٹاتی رہے اور پھر تھک کر وہ میرے ساتھ سمجھوتہ کر بیٹھے
پھر یہ سوچ کر سائیکا ٹرسٹ والا ارادہ بدل دیتی ہوں کہ
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

No comments:

Post a Comment