Pages

Friday 2 November 2018

بے بسی




دل زار رک جا۔
رک کہیں سے درد ڈھونڈ کر لاتی ہوں
تیری تشفی کو کسی دکھ پر روتی ہوں۔
کوئی بھوکا بچہ
بے بس ماں
کوئی تنہا بیٹی
اکیلا باپ
یا پھر کہیں لوگوں کے ہجوم میں
تنہا کھڑا انسان
میں کوئی کہانی بنتی ہوں
پھر اس پر روتے ہیں
دل زار تیری تشفی کو
یہ بھی کر گزرتے ہیں۔
کیوں نہ کوئی بولتی تصویر لگائی جائے۔
ہجرت کا دکھ لیے بچہ کوئی۔
موت کے خوف میں لپٹی کوئی تتلی
جگنو جو رستہ بھول گیا ہو۔
آزادی و عشق کے لیے لڑتی ہوئی 
لڑکی کوئی نہتی۔
کسی جنگجو قبیلے میں
نظمیں لکھتا غزلیں کہتا 
شاعر کوئی
مدھرتا میں ڈوبا کوئی 
محبت بھرا دل۔
کہیں کھو جائیں 
چھینے جائیں۔
اور کہیں ستائے جائیں۔
ہم لفظوں کے سوداگر
بولتی چلاتی تصویریں لگا کر
"کسی دکھ پر اکھٹے روئیں"
جیسے ماتم کرنے والیاں
گریباں کھولے
بال پھیلائے ماتم کیا کرتی ہیں۔
جیسے جنگلوں پر گدھ منڈلاتے ہیں۔
دل زار یہ سب کرتے ہیں۔
اوروں کے غموں پر
دلفگار ماتم کناں ہوتے ہیں۔
دل زار تیری بے کلی کا 
کوئی درماں کرتے ہیں۔
علاج فسردگی درد کا درماں۔
کچھ تو ایسا کرتے ہیں
جو یہ بے دلی نکلے۔
دل زار تیری بے کلی نکلے۔
کرب و بلا، یہ بے بسی نکلے۔



سحرش عثمان۔

No comments:

Post a Comment