Pages

Friday 2 November 2018

سوشل میڈیا سے نسوانی بیان حصہ دوم


اس سلسلہ کی یہ قسط لکھنے سے پہلے ہم کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ اول تو یہ انجمن ستائش باہمی نہ تصور کی جائے کہ اس میں باہمی یگانگت کے رنگ پھیکے ہیں۔ ہماری ممدوح آنٹی لوگ ہلکا سا سڑیل ہورہی ہیں ہمارے خود پر تبصرے پڑھ پڑھ کر۔ دوسری بات جس کی وضاحت ضروری سمجھتے تھے وہ فلحال ہمیں یاد نہیں آرہی۔ تیسری یہ کہ یہ ان تحریروں کو ہماری گفتگو کی طرح بس شرارت ہی سمجھا جائے دل پر مت لیا جائے لیکن پھر بھی کوئی اسے جی پر لگانے پر مصر ہے تو یقین جانیے آپ کو اوفینڈ کر کے ہمیں دلی اطمینان وغیرہ حاصل ہوگا۔ رہ گئی ہمارے سدھرنے کی اِچھا و آشا تو یہ بالکل چھوٹے سے دل کی چھوٹی سی آشا ہے۔۔ اپنی اپنی چوٹی میں دنیا باندھنے جیسی۔ ایسا مشکل نہیں یہ، ایک بار ہم نے باندھی تھی چوٹی میں دنیا۔ پھر گلوب والا وہ کیچر ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ گیا۔


ان کی زندگی کے بہت بہت بڑے مسائل میں مطلوبہ انکل کا بہت بری چائے بنانا سرفہرست ہے۔
خیر۔ آتے ہیں مدعا کی طرف، تو ہماری آج کی مہمان ہستیوں میں پہلے نمبر پر آتی ہیں غزالہ آپا۔
ان سے پہلے ایسی خواتین صرف نورالہدی شاہ کے ڈراموں میں نظر آتی تھیں۔ سب کو دعا دینے والی۔ انہیں دیکھ کر ہلکا سا یقین ہوا یہ ڈرامے وغیرہ ایسا جھوٹ بھی نہیں ہوتے۔جہاں تک میرا خیال ہے یہ آدھے پاکستان کی تو آپا ہیں باقی جن کی نہیں ان کی بننے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔ اپنی وال پہ چائے کی دہائی دیتی پائی جاتی ہیں جس پر ہم سے بدتمیز بچے ہنستے ہیں تو بجائے ڈانٹنے کے خود بھی ساتھ ہنسنے لگتی ہیں۔ ان کی زندگی کے بہت بہت بڑے مسائل میں مطلوبہ انکل کا بہت بری چائے بنانا سرفہرست ہے۔ انکل کی اتنی بری چائے کی مشہوری اکثر کرتی رہتی ہیں۔ اس چائے پر ڈالی جانے والی پنیلٹیز کا ذکر دانستہ بھول جاتی ہیں۔کل ملا کر یہ کہ انکل کو چائے بنانا نہیں آتی اور آپا کو دشمن بنانا نہیں آتا۔حد تو یہ کہ آنسہ کو بھی صاف ستھرا نکھرا سلجھا بچہ کہتی سمجھتی ہیں۔ان کی اس بات پر ہم کئی دن منہ چھپائے ہنستے رہے تھے۔ ہنس لیں آپ سب بھی یہ ہی زندگی ہے خود پر ہنسنے والی دل کھول کر ہنسنا پڑتا ہے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب وقت دوراہوں پر لا کھڑا کرے تو پھر دوستوں کو یاد کرنا پڑتا ہے سو ہم بھی کرتے ہیں آپ بھی کیجئے۔



اگلی مہان ہستی ہیں۔ ہماری بالکل بھی نہیں پیاری دوست رابعہ خزیں۔ اس کے سر نیم پہ مت جائیے گا بہت شوخی ہے۔ مورخ جب بھی شوخیوں کا ریکارڈ مرتب کرے گا اس کا نام اوپر والی سطروں میں لکھا جائے گا۔ فیس بک پر ان سے ملاقات ایک چلتے پھڈے میں ہوئی۔ لڑکی مردانہ وار لڑ رہی تھی ایک انتہائی مرشدی سے۔ ہم ہلکا سا متاثر ہوئے ہی تھے کہ راشد حمزہ سے کہلا بھیجا ہمیں ایڈ کرنے کے لیے ہم نے سوچا ایسی تہذیب والی لڑکی یوں نہیں ضائع ہونی چاہیے ایڈ کر کے تمیز سکھاتے ہیں۔ پر وائے افسوس ایڈ کرنے کے بعد پتا چلا جو رہی سہی تمیز ہم میں باقی تھی وہ بھی لٹانے کا موسم آگیا ہے۔ یہ ان دوستوں میں ہیں جن کو گھر والوں سے چھپا کر رکھتا ہے بندا کہ جب بھی بزتی ہوتی ہے ان کا 147ذکر خیر148 بھی ضرور کیا جاتا ہے پھر۔ خیر خاتون کسی زمانے میں اندھا دھند انصافی ہوا کرتی تھیں۔ آج کل 147جمہوریت اور پاپائے جمہوریت148 کی زلف کی اسیر ہوئی ہیں۔ بس اسی سے اندازہ لگائیے کہ ہلکی سی پاگل بھی ہے، جو چیز ہے ہی نہیں اسی کی اسیری اختیار کر بیٹھی ہے۔ جب انصافی تھی تو گندی گالیوں سے تواضع کرتی تھی سب کی۔ اب پٹواری خانے میں ہیڈ مسٹرس کے عہدے پہ فائز ہے اور وہاں سے سارے انصافیوں کی پی ڈی ایس کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ جسمیں اکثر پیشتر کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے ان کے نئے و پرانے دوستوں میں۔



آزاد روح ہے آزادی پر عشق بھی قربان کردینے والے قبیلے سے تعلق ہے۔
ٹریولر سول ہے۔ اکثر بیشتر آوارہ گردی کرتی رہتی ہے۔ جب کہیں گھوم پھر نہ رہی ہو تو بیمار پڑ جاتی ہے لہذا ان کے واٹس ائپ پر یا تو راستوں کے سٹیٹس لگتے ہیں یا سرنجوں کے۔ آجکل بھی صاحب بلکہ خاتون فراش ہیں پچھلی آوارگی میں چوٹ لگوا بیٹھی تھیں۔ آزاد روح ہے آزادی پر عشق بھی قربان کردینے والے قبیلے سے تعلق ہے۔ پیار نال پاویں بندا مروا لوو بٹ ونس یو پش ہر۔۔۔۔۔فیر کسی جنگجو قبیلے کی سالار ہے لیلی۔



سر پھروں میں سر پھری ہے۔ آشفتہ سر ہے، سیلانی ہے، حساس ہے اور بدتمیز ہے۔ اگر اس کی ساری خوبیوں خامیوں کو جمع کیا جائے، صرف بدتمیزی نکال دی جائے تو رابعہ، رابعہ نہ رہے۔ ہاں ایک اور خوبی ہے، بے وزن شاعری کرتی اور بڑی ستھری نثر لکھتی ہے۔ بہت سے سیاسی سماجی معاملات میں اختلاف کے باوجود ٹھیک لگتی ہے۔ مددگار ہے اور صاف دل۔ لیکن پھر دہراتی ہوں۔۔۔ ان باکس میں جانے سے پہلے سوچ لیجئے گا۔۔ جس کو ہو جان و دل عزیز وہ ان کی گلی میں جائے کیوں۔ اور بزت کرتے وقت عورت مرد کی سیگریگیشن بھی نہیں کرتی۔ صنفی امتیاز کی قائل نہیں ہے ایک جیسی گالیوں سے نوازتی ہے لہذا اک ذرا احتیاط۔



انیسہ فرزند اب تم پر کیا لکھوں؟ تم اجنبیوں پر اعتبار کی پہلی سیڑھی ہو اور بے وجہ محبت کی پہلی کوشش چلو شعر سنو۔
بے وجہ بے سبب بے ارادہ چاہا
ہم نے تم کو کتنا سادہ چاہا



فرح رضوان اور فریحہ ڈار کو بس تھوڑا تھوڑا جانتی ہوں اتنا تھوڑا کہ دو تین مہینے ان دونوں کو ایک ہی سمجھتی رہی۔ فرح اور فریحہ میں فرق اس دن سمجھ آیا جب دونوں کو ایک ساتھ ایک جگہ کمنٹ کرتے ہوئے پایا کئی پل تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھر سوئی دھاگے سے آنکھیں سی کر دیکھا تو دو الگ الگ خواتین نظر آئیں۔



فرح رضوان کو دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے بندا گرینی بن کے بھی ٹرینڈی ہوسکتا ہے اور کیوٹ بھی۔ فریحہ ڈار کو پڑھ پڑھ کر حوصلہ ہوا کہ بٹ حضرات صرف کھاتے ہی نہیں ہیں لگاتے بھی ہیں والز پہ دماغی محنت تو میرا اس سوچ پہ ایمان بحال ہوگیا کہ کھاتے ہیں تو کیا ہوا لگاتے بھی تو ہیں۔



فرح کی تحریر میں ڈوب کر ابھرنے کے درمیانی وقفے میں خود کے کئی ایسے کام یاد آجاتے ہیں جن پر ہم نے کئی جواز تراش رکھے ہیں۔ جن کو کر کے شرمندگی نہیں ہوتی جو کہ ہونی چاہیے۔ ان کی تحریر میں وہ شرمندگی خود پر طاری ہوتے ہوئے دیکھی تو ڈر کے کہ ان کی تحریر پڑھنی چھوڑنا چاہی تو خالی پن کے احساس نے مجبور کردیا اب بھی ان کی کئی تحریریں آدھی ادھوری پڑھی ہیں کہ پوری پڑھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔



فریحہ کی وال پہ نرمی اور خوبصورتی کا تاثر اتنا گہرا ہے کہ بے ساختہ وہاں دل کھینچتا ہے۔ مجھے یقین ہے یہ عام زندگی میں بہت پیارا ہنستی ہوں گی۔ اور ہنسی کا یہ تاثر ان کی مستقل اداس آنکھوں میں بڑا پیارا لگتا ہوگا۔



خان نشرح جن کو آدھی فیس بک شاز اور باقی آدھی خان کہتی ہے، ہم نشرح کہتے ہیں۔ زبان کی چاندی، فلسفے اور نفسیات کا رنگ کسی ایک ہی تحریر میں دیکھنا ہو تو انہیں پڑھ لیجئے۔ ہمسائیوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اس کے پیش نظر انہیں ایڈ کیا اور خود کی نالائقی پر بہت افسوس ہوا۔ کئی دن احساس کمتری ہوتا رہا۔ وہ تو شکر ہے اللہ کا خاصے ڈھیٹ واقعہ ہوئے ہیں ہم اس بات کو دل پر نہیں لگایا وگرنہ جو ہم اس احساس کے تحت چل بستے تو کون ذمہ دار ہوتا؟
لہذا مرنے کا اارادہ موقوف کر کے ہم نے انہیں پڑھنے پڑھتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اکثر و پیشتر غم امتحان کے پیش نظر یہاں وہاں سے غائب ہوجاتی ہیں، جب نظر آتی ہیں تو نیا موضوع نیا اسلوب لاتی ہیں اور دل۔جیت لیتی ہیں۔



سارے ایکسٹرا فرینکنس والے 147بھائیوں148 کو جب آپ، ہمارے سگے بھائیوں جیسے ہیں، کہتی ہیں تو آنسہ فلک شگاف قہقہ ضرور لگاتی ہیں۔ خدا جانے معصومیت میں کہتی ہیں یا چالاکی میں لیکن وہ 147بھائی148 دوبارہ ان کی وال پہ نظر نہیں آتا۔ یہ آزمودہ فارمولا دیگر خواتین بھی آزما سکتی ہیں۔ تب تک کے لیے جاتے ہیں۔ اگلی قسط میں نئے دوستوں کے ساتھ آیا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment