Pages

Tuesday 20 March 2018

کھانا خود گرم کر لو



خوامخواہ بولنے، خومخواہ لکھنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پیش خدمت ہے ہماری خامہ فرسائی۔
فیمنسٹ آنٹیز اسے ایسے بھی پڑھ سکتی ہیں کہ اپنے حقوق کی پہچان کی طرف پہلا قدم اور چند گزارشات جنہیں حکم سمجھا جائے تو اچھا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ملین مارچ کے شبھ موقع پر پلے کارڈ پر لکھا مطالبہ پڑھا تو ہنسی آئی۔ اور اس کی جسٹیفیکیشن پر بنی وڈیو دیکھ کر غصہ آیا۔
ایسے موقع پر پنجابی میں ہم نانی کے کھسم والی مثال دیتے ہیں۔ لیکن یہاں بیان نہیں کی جا سکتی آخر  ایک عدد فیمنسٹ ہیں ہم بھی۔ اورنانی سمیت ہر کسی کو کھسم کرنے نہ کرنے کے حق کو اس کا بنیادی حق اور آزادی سمجھتے ہیں۔
ساتھ ہی ہمارا یہ خیال بھی ہے  کہ اگر کوئی مذکورہ بالا محاورے میں موجود نانی والا کام کرنا ہی نہیں چاہتا زندگی میں کبھی تو  اسے یقینا اُس صورتحال کے مسائل کا ادراک نہیں ہوسکتا ۔
جب تک جوتا پہن نہ لیا جائے کیل کی پوزیشن، چبھن کا اندازہ ممکن ہی نہیں۔
خیر یہ تو تھی ضمنی بات۔
اصل مدعا تو آپ نے بیان کردیا کہ نہیں کرنا کھانا گرم تو ٹھیک ہے نا۔ آپ کی مرضی ہے اس سے کس کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ آپ نے نہیں کرنا کھانا گرم تو نہ کریں۔لیکن جو کرنا چاہتی ہیں ان پر اپنا نظریہ کو امپوز کر رہی ہیں بھئی۔ آپ کا جسم آپکی مرضی ہوسکتی ہے۔ تو دوسری خواتین کا گھر ان کی زندگی بھی ان کی مرضی ہوسکتی ہے۔
آپ اپنے جسم کا اچار ڈالیں مربہ بنائیں ممی بنائیں یا میوزیم میں رکھوائیں مجھے اعتراض نہیں۔ لیکن ساتھ ہی مجھے بھی یہ حق دیجئے۔ یہ ہی آزادی دیجئے۔
مجھے آپ کی فر والی ٹاپ اور منی سکرٹ پر اعتراض نہیں تو آپ کو میرے سٹالر سکارف پر کامنٹ کرنے کا حق اختیار کس نے دیا؟
اس غلط بلکہ خوش فہمی سے نکلیے کہ آپ سارے ملک کی ٹوٹل خواتین کی اکلوتی نمائندہ ہیں۔
آپ کے مسائل ہوں گے یقینا حقیقی مسائل ہوں گے۔ ممکن ہے مردوں کی ڈیلنگز آپ کے ساتھ فئیر نہ رہی ہوں۔ ممکن ہے آپ رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوں۔ عین ممکن ہے آپ کا مدعا بالکل ٹھیک ہو۔
لیکن یہ بھی تسلیم کریں کہ بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو ردعمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہیں۔ جن کے ساتھ باپوں خاوندوں بھائیوں کے روئیے بہت اچھے ہوں گے۔ اور کچھ ہم سی۔۔۔یعنی آنسہ سحرش عثمان جیسی بھی ہوں گی جو یہ سمجھتی اور اس کا برملا اظہار کرتی ہیں کہ زور آور کی کوئی جنس نہیں ہوتی زورآور بلا امتیاز جنس استحصال کرتا ہے۔
تو یہ ساری خواتین کیوں آپ کے نظریات کو تسلیم کرلیں اور کیسے؟
صرف اس لئے تسلیم کر لیا جائے کہ آپ ایک انتہا کے خلاف لڑتے ہوئے انتہاء پسند ہوگئی ہیں۔
آپ کی ملائیت صرف اس لئے تسلیم کرلی جائے کہ آپ مذہبی ملائیت کے خلاف لڑ رہی ہیں؟
آپ کو خواتین کے حقیقی مسائل کا ادراک ہے بھی؟ آپ کے لیے مائیکرو کا بٹن دبا کر کھانا گرم کرنا مسئلہ ہے۔
جبکہ اصل مسئلہ آپ کی میڈ کو درپیش ہے جس کے بچے کی پیدائش پہ آپ اسے پیڈ تو کیا ان پیڈ لیو بھی دینے کو تیار نہیں۔ آپ اسے نکال کر دوسری میڈ رکھ لیتی ہیں یہ کہتے ہوئے کہ اس کا تو ہرسال کا یہ کام ہے۔
خاتون کا مسئلہ سمجھنا ہے تو سارے پرائیویٹ اداروں میں کرسیوں پہ بیٹھی خواتین کو دیکھیں جو دو دو ہفتے ایک ایک مہینے کا بچہ نانی کے پاس یا ڈیئر کئیر سینٹر میں چھوڑ کر کرسیوں پر بیٹھی اکنامک انڈیپینڈینس کی لوری سنا سنا کر اپنی ممتا مارتی رہتی ہیں۔
مسائل کیا ہوتے ہیں کبھی کھیتوں میں کام کرتی اس خاتون سے پوچھیں جو نو مہینے ریگولر اور تین دن پہلے پری آب چیک اپ کے لیے کسی مہنگے ہسپتال کے بستر پر پڑی نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اس لئے پریشان ہوتی ہے کہ کٹائی کے دنوں میں بچہ ہوگیا تو کتنے دنوں کا حرج ہوجائے گا۔
اس خاتون سے مسائل پوچھئے جو ایم ایس سی فزکس بیٹی کے لیے رشتہ ڈھونڈتے ہوئے انٹر فیل لڑکے کو کنسیڈر کر رہی تھی۔
وہ سارے مسائل بھی جانیے جو ہر روز لڑکیوں کو کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے درپیش ہوتے ہیں۔
اس نفسیاتی ٹارچر کا حل ڈھونڈیے جو پانچ پانچ سال کی بچی کو یہ کہہ کر دیا جاتا ہے کہ اگلے گھر جا کر کیا کرنا ہے۔ اور یہ ٹارچر کوئی اور نہیں اردگرد موجود خواتین ہی دیتی ہیں۔
مسائل ہی حل کرنے ہیں،انہیں مضبوط ہی بنانا ہے تو اس سوچ کی نفی کیجئے خاتون باہر نکل کر ہی مضبوط ہوتی ہے کام کرکے پیسے کما کر ہی مضبوط ہوتی ہے خاتون۔
گھر بیٹھی خواتین کے کام کو کام کنسیڈر کیجیے۔ انہیں اپنے بل پہ مضبوط بنانے کی کوشش کیجئے۔ اکنامک انڈیپینڈینس ہی دلانی ہے تو نکاح نامے میں شقیں ڈلوائیے نان و نفقے والی نکاح جیسے سوشل کانٹریکٹ میں سول کورٹس کی شمولیت پر بات کیجئے۔
گارنٹر کی قانونی حیثیت پر بات کیجئے۔
لڑکی کو نکاح میں اپنا وکیل خود چننے کی آگاہی دیجئے۔
کیوں۔۔
کیونکہ مجھ سمیت بہت سی لڑکیاں خواتین آپ کی طرح اس انسٹینکٹ کا انکار نہیں کرتیں۔ فطرت سے بھاگنے کا نہ کوئی شوق ہے نہ خواہش۔
ہم شادی کے معاشرتی تصور پر بات کرسکتے ہیں اس پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن سوکالڈ آزادی کے لیے فطرت سے بھاگنے کا نہ ہمیں شوق ہے نہ دلچسپی۔
 مسائل ہیں، حقیقی مسائل ہیں گھمبیر بھی میری آپکی جنس متاثر ہورہی ہے  لیکن یقین کیجئے جس طرح ایک فیصد سے بھی کم لوگ گرم کھانے پر مارتے پیٹتے ہیں بالکل اسی طرح ایک فیصد سے بھی کم خواتین صرف کھانا گرم کرنے کی بات پر اوفینڈ کرتی یا ہوسکتی ہیں۔
رہ گئی بات جینڈر رول ڈیفائن کرنے کی تو کیا بڑی بات ہے؟ آپ نہ مانیے اس ڈیفینیشن کو۔ آخر آپ سوشیالوجی کے پرسپیکٹو میں فیمینزم کو بیان کرتی ڈیفینیشن کو بھی تو نہیں مانتی ہوں گی نا۔ آپ جیسی سوڈو فیمینسٹ اس کو زمینی حقیقت ہی سمجھے گی کانفلکٹ تھیوری تو ماننے سے رہی۔
تو کہنا یہ ہے کہ میں آپ کے فیمینزم میں نہیں گھستی آپ ہمارے ریلزم میں مت گھسیے۔
پیس فل کو ایگزسٹنس کہتے ہیں اسے۔
اور اگر مقدمہ لڑنا ہی ہے جنس کا تو آئیے رئیل گراونڈز پہ لڑتے ہیں اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنا کہ۔
انہیں فطری اور نارمل زندگی جینے کا حوصلہ دے کر۔کیونکہ فرار کوئی حل نہیں ہوتا۔
اپنی بیٹیوں کو آزادانہ اور مشکل فیصلے لیتے دیکھ کر ان کے لیے سپورٹیو ہو کر۔ تعصب کے دائرے کا بیل بننے سے بچا کر۔
یہ کہنا کہ کام ہی کرانے ہیں تو میڈ سے شادی کر لیں انتہائی غلط بات ہے کیونکہ میڈ بھی ایک ورکنگ لیڈی ہوتی ہے۔ اکنامک انڈیپینڈنس کا شکار۔
اگر یہ سب نہیں کرنا۔۔۔ تو پھر ایک مفت مشورہ لیجئے۔۔
سن لائٹ میں ڈی ایم جی ایم کی ڈرائے بیس اور میڈونا آف لنڈن کا سن بلاک استعمال کرنے کا۔
امید ہے برا نہیں مانیں گی۔
کھانا کھانا ہوا تو گرم کر لیجئے گا۔۔۔ میں تو نہیں کروں گی باس۔

No comments:

Post a Comment