Pages

Monday 5 March 2018

کیوں ٹھہر گئی دل میں اُس قیام کی آہٹ



جب چاند بھی کھڑکی سے باہر ڈرا سہما سا ٹنگا تھا جب کھڑکی کے پاس کرسی پر بیٹھی ہوئی کے لیے چاندنی بھی فسوں جگانے سے انکاری تھی۔ اس رات میرے کمرے میں صرف ایک زندہ چیز تھی۔ کمرہ ہی کیا کائنات کی تمام وسعتوں میں میرے لیے زندگی کا مفہوم بس میری بک شیلف پر رکھی کتابیں تراش رہی تھیں۔ وہ کتابیں جن پر تمہاری پوروں کا لمس ابھی زندہ تھا۔ کہیں جلد پر دو انگلیوں سے کھینچی لمبی لکیر روشنی کا سفر طے کر رہی تھی تو کسی کتاب کے اندر مڑا ہوا کوئی صفحہ شہادت اور انگھوٹھے سے پکڑے جانے پر نازاں تھا۔ کسی صفحے پر جگمگاتے لفظ اس بات کی غمازی تھے کے تم نے پڑھتے پڑھتے بے دھیان ہو کر ان پر ہاتھ رکھ دیا ہوگا۔

سنو وہ میرا ہاتھ ہوتا تو لفظ گھٹن سے مر جاتے۔ وہ تم تھے جو گھٹن سے بھی لفظ نکال لیتے ہو۔
تمہاری پوروں کا یہ لمس میرے دل پر دستک کی صورت بھی محفوظ ہے۔
جب میں احساس کی شکستگی پر خائف سارے آنے سے خفا تھی تو تم تھے جو دل پر دستک دیے اندر چلے آئے تھے۔
دستک پر اونہوں سن کر بھی تم نے ہار نہیں مانی تھی۔
میری روح میں تمہاری روح ایسے حل ہوگئی ہے جیسے پانی میں کسی نے نمک گھول دیا ہو۔ اب اس میں کوئی بھی ذائقہ ملایا جائے نمک کا، ذائقہ آتا رہے گا۔
دل کی سرزمینوں پر بوڑھے برگد کی طرح ایستادہ وجود ہو۔ جس کی جڑیں اتنی گہری اور وسیع رقبے پر پھیل چکی ہیں کہ اب اگر تم یا، میں جڑ در جڑ بھی اسے کاٹنا چاہیں تو سینکڑوں جڑیں کاٹنی پڑیں اور کوئی ایک آدھی پھر بھی اندر رہ جائے گی۔ دوبارہ سے کونپل اس سے کلی پودا اور درخت بننے کو۔

جب احساس کی موت پر میں دعا پر بھی یقین کھو بیٹھی تھی تب تم تھے جس نے دوا کی تھی حرف تسلی سے۔ دعاؤں پر یقین لوٹانے پر کوئی کیسے سپاس گزار ہو؟ سنو فراحی کشادگی میں کی جانےوالی بے پناہ چیئریٹی شائد وہ معنی نہ رکھتی ہو جو تنگ دستی کا ایک روپیہ کرتا ہو۔ کرب کے دور میں تمہارا لہجہ میرے اندر پلتے جڑ پکڑتے پروان چڑھتے زہر کا واحد تریاق تھا۔ بالکل ایسے جب کتابوں میں موجود ساری اچھی باتوں پر سے میرا ایمان اٹھ گیا تھا جب لفظوں کے گورکھ دھندے سے اکتاہٹ اپنے عروج پر تھی جب مجھے آسمانی فیصلے بھی زمینی 147سازشوں148 کا حصہ لگنے لگے تھے تم نے اس دور میں ساتھ دیا۔ اس دور میں میری سماعتوں پر اپنے لہجے میں بسے الہاموں کو اتارا۔ کرب کے اس دور میں تمہارے وجود کے گہرے رنگوں نے میری روح کی بے رنگی ڈھانپ لی تھی۔ میرے لہجے کی خفگی ختم کرنے کے لئے تمہارے لمبے لمبے فلسفے اندر سلگتے دل پر پھوار کی طرح برستے رہے اور تم نامحسوس طریقے سے اندر بسی ناراضی نکالتے رہے۔

سنو! مجھے لگتا تھا اندر ایک شعلہ ہے بھڑکتا ہوا میرے مزاج سے میل کھاتا جو میرے اندر باہر کو جلا کر بھسم کردے گا۔
لیکن اس دن جب سفید گلابوں کی کیاری کے پاس کرسی پر بیٹھے میں خلاوں کے سفر پر 147روانہ148 ہونے لگی تھی اور تم نے کافی کے دو مگ درمیان میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہہ دو۔ ۔
تمہیں معلوم ہے کیا ہوا تھا ؟ میں نے کافی کے مگ میں آنکھیں کیوں گم کرنے کی کوشش کی تھی۔ سنو اس دن احساس ہوا تھا کہ اندر شعلہ نہیں جل رہا اندر تو سیہ پارہ ہوتا ہوا ایک انگارہ تھا ہے جو مسلسل سلگ رہا ہے اور اس سے اٹھتا دھواں میری آنکھوں میں چھبنے لگا تھا۔ میں نے اس چھبن سے گھبرا کر مگ میں منہ چھپانا چاہا تھا۔

تم کہتے ہو مجھے بھی اداس کردیتا ہے اپنے نظریات پہ قائم رہنا تو کیا ہوا؟ نظریات پہ جینے کی قیمت اداسی ایسی بری بھی نہیں۔
کیا کیا جائے۔ ۔ ۔ یہ بھرم بھی بڑی ظالم شئے ہوتی ہے اس کو قائم رکھنے کے چکروں میں خدا جانے کہاں کہاں کیا کیا گوارا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں جہاں چینخنے کا چلانے کا موقع ہوتا ہے وہاں مسکرا کر چپ کر جانا پڑتا ہے۔ جہاں سامنے پڑی ہر شئے تلپٹ کردینے پر جی پوری طرح آمادہ ہوتا ہے وہاں چپ چاپ ہاتھ سینے پہ باندھے اٹس اوکے کہہ دینا پڑتا ہے۔ اور وہاں جہاں اجارہ داروں کے خلاف اندر کا وحشی آمادہ برجنگ ہوجاتا ہے تب اس کی سونتی ہوئی تلوار کو نظر انداز کرکے جگہ چھوڑ دینی پڑتی ہے۔
اس ایک بھرم کو قائم رکھنے کو۔
لیکن برا ہو تمہارے اندر لگی اس تیسری آنکھ کا جو میری آنکھ میں در آنے سے بھی پہلے اس آنسو کو سمجھنے دیکھنے سپیس دینے پر تیار ہوجاتی ہے۔
اور بھلا ہو اس ظرف کا جو میرا بھرم ٹوٹنے نہیں دیتا۔

سنو! تم ایک عجیب شخص ہو ٹوٹل عجیب، تم وجدان کی روشنی سے منور بے ریا حقیقت پسند ہو۔ جو خواب میں بنایا تعلق بھی نبھاتا ہے۔
تم کہتے ہو مجھے بھی اداس کردیتا ہے اپنے نظریات پہ قائم رہنا تو کیا ہوا؟ نظریات پہ جینے کی قیمت اداسی ایسی بری بھی نہیں۔ تمہارے خیال میں مستقبل مشکل ہو سکتا ہے۔ دیکھو میں متفق نہیں تم کچھ سال پہلے بھی تو اسی جمود کا شکار ہوئے تھے نا؟ جب پرانے قلعہ میں گھومتے تم سے وہ ٹکرائی تھی۔ جو اتفاقی ٹکر پر گھورنے کی بجائے بے ساختہ ہنس دی تھی اور تم دوڑے دوڑے خول میں جا گھسے کہ اس کی ہنسی سے ڈر گئے تھے تمہیں لگا تھا اس کی ہنسی تمہارے وجود کو تحلیل کردے گی۔ وہ تمہیں کیمسٹری کے کسی ایکسپیریمنٹ کی مانند مختلف عناصر کا مرکب بنا کر کسی دن یونہی لیب میں چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اور تم آنکھوں میں وحشت لئے آنے والے زمانوں میں غیر فعال مادے کی صورت پڑے پڑے فنا ہوجاؤ گے۔

پھر کیا ہوا؟ پرانے قلعے میں کسی آوارہ روح کی طرح پھرتی وہ چنچل اندر سے تاریخ کی کتاب کی طرح گہری نکلی نا ؟ وہ جس نے تمہیں موٹروے پر جاتے ہوئے ٹوکا تھا کہ کھڑکی سے باہر دیکھو اور اسوقت جب تم نے باہر دیکھتے ساتھ ہی منظر کیمرے میں قید کیا تھا تو جانتے ہو کیا کہا تھا ؟ تم نے کہا تھا خوبصورت منظروں کے لیے سفر کچھ وقت کو روک بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سنو اب بھی ایسا ہی ہے۔ اب بھی ماضی کی طرح تمہارا مستقبل سے متعلق رویہ منفیت پر مبنی ہے۔
شاعر کہتا ہے
سنو ایسا نہیں کرتے
سفر تنہا نہیں کرتے۔
حالانکہ میں اس سے متفق نہیں کبھی کبھی سفر تنہا بھی کرنا چاہیے۔ پر پھر بھی کہتی ہوں سنو راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے خدشوں کے پیش نظر تو منزلیں کھوٹی نہیں کی جا سکتی نا۔
اسے خود غرضی کہو یا کچھ بھی۔ پر سن لو تمہیں اداس دیکھنا میرے اندر کے انسان کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے۔ تمہاری اداسی پر میرے اندر کوئی تڑپ جاتا ہے۔ مجھ پر اس اداسی کا سرا ڈھونڈنے اس ڈور کو سلجھانے کی دھن سوار ہوجاتی ہے۔

تم کو بے یقینی کا شکار دیکھنا ایک مشکل کام ہے۔ میں نے بے یقینی کے پوائنٹ آف سیچوریشن پر تمہیں بے یقینی کے کرسٹین توڑتے انہیں امید کی آنچ سے پگھلاتے دوبارہ یقین بناتے دیکھا ہے۔
تم کو بے یقینی کا شکار دیکھنا ایک مشکل کام ہے۔ میں نے بے یقینی کے پوائنٹ آف سیچوریشن پر تمہیں بے یقینی کے کرسٹین توڑتے انہیں امید کی آنچ سے پگھلاتے دوبارہ یقین بناتے دیکھا ہے۔ اب میں یہ کیسے مان لوں وہی بے یقینی تمہیں گھیرے ہوئے ہے۔ ؟ میں غیر انسانی توقعات کا بوجھ نہیں ڈال رہی تم پر۔ میں بس یہ چاہ رہی ہوں کہ تمہارے اندر غیر مشروط محبتوں پر ایمان کی صورت یہ یقین بھی اتر جائے کہ زندگی پر بدگمانیاں مستقبل کے خوف محبتیں نگل جایا کرتے ہیں۔
تم بس محبت زندہ رکھنے کا امید جگانے کا فن زندہ رکھو تم زندگانی کے سارے خوشنما امکانات کے در وا ہوتے دیکھو گے۔
کیونکہ یہ ہی زندگی ہے۔ ۔ ۔ دن سورج کا ہے تو رات بہر صورت چاند ہی کی ہونی ہے۔ تنگی کے دامن سے لپٹی ہوئی آسانی اور جنگ کے بدن سے پیدا ہوتا امن۔ سنو یہ ہی زندگی ہے۔ ۔
بھیگی آنکھوں سے مسکراتی ہوئی۔

بارش کے بعد نکلنے والی دھنک جیسی۔ جس کے الٹے لوپ پر چلتے ہوئے ایک سیارے سے دوسرے پر جانے کی فینٹسی لئے بہت سے تخیل زندہ ہیں۔ اور تخیل کا نہ مرنا ہی تو انسان ہونے کی علامت ہے۔ جب انسان کسی بھی صورت اندر کا تخلیق کار مرنے نہی دیتا۔ جب وہ باہر کی نفرت کسی کردار کو تراش کر نکال لیتا ہے اور جب کوئی میسر نہ ہو تو وہ خود سے گفتگو کر کے خود زندہ رکھ لیتا ہے۔ تو وہ ثابت کردیتا ہے کہ انسان مر سکتا ہے ہار نہیں سکتا۔ (ارنسٹ ہیمنگوے)
سنو!تم میری نفرتوں کے دور کی محبت ہو۔ کرب کے زمانے کا سکون ہو۔ بقول شاعر آفتوں کے دور میں چین کی گھڑی ہے تو۔

No comments:

Post a Comment