Pages

Tuesday 20 March 2018

خود کلامی

سنو۔
پہلے بھی کہا تھا پھر کہتی ہوں۔ہر اچھا برا فیز کچھ نہ کچھ سیکھا کر جاتا ہے۔
معلوم ہے میں نے کرب کے اس دور میں کیا سیکھا تھا؟ کہ کوئی رشتہ کوئی تعلق مستقل نہیں ہوتا۔
مجھے معلوم ہے یہ مشکل تم پر آگاہی کے نئے دروازے کھولے گی۔ اب تم نے کہنا ہے آگاہی بھی کرب ہے۔
ہاں تسلیم آگاہی بھی کرب ہے۔ مگر جہالت سے کم تر درجے کا۔
پتا ہے کیسے ؟
آگاہی کا کرب اپنے آپ پر بیتتا ہے۔ شعور کی آگ جلا کندن بنا دیتی ہے۔
شعور وہ کیمیا دان ہے جو مٹی کو پارس کردیتا ہے۔
اور جہالت کی تکلیف سامنے والے پر مخاطب پر گزرتی ہے۔
اور اس کی تپش اس کے بی ہولڈر کو جلا کر خاک کردیتی ہے۔
کبھی اناؤں کے گہرے پانیوں میں کبھی اختیار کے اندھے گڑھوں میں۔
کبھی موقع ملے تو تاریخ کے قبرستان کھگالنا تمہیں ایسے بے شمار فرعون ملیں گے جو وقت کے سینے میں دھڑکن کی مانند ناگزیر سمجھتے تھے خود کو۔ اور جب وقت پھرا تو یہی لوگ اپنا نشاں ڈھونڈتے رہے داستانوں میں۔
سنو یہ سخت مرحلہ ہے۔۔مجھے معلوم ہے لیکن یہ تمہیں کندن بنانے آیا ہے۔
حوصلہ مت ہارنا۔
خود کو اس لمحے کا قیدی مت بنانا۔۔
معاف نہیں کرنا نہ کرنا تمہاری چوائس ہوگی۔۔البتہ بھول جانے کی کوشش کرنا۔
یاد رکھنے سے زخم رہے رہتے ہیں۔اور طاقت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
سنو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

No comments:

Post a Comment