Pages

Tuesday 16 January 2018

زینب ہماری سفارش کردو




بار بار فیملی کی ساری چھوٹی بچیاں نظروں کۓ سامنے آرہی ہیں جو کبھی صبح سکول جاتے ہوئے اپنے ابا سے جھگڑتی ہیں۔ کبھی پسند کی چیزیں نہ ملنے پر کبھی بہن بھائیوں سے معمولی تکرار پر۔



چار سالہ آئبہ یاد آئی جو سکول سے واپس آکر سارا دن سائیکل چلاتی رہتی ہے اگر پوچھیں تو کہتی ہے سائکلنگ از گڈ فار ہیلتھ۔ جو کبھی ماں کو انفارم کرتی ہے کہ مجھے ڈاکٹر نے بھنڈیاں کھانے سے منع کیا ہوا ہے۔اور کبھی کہتی روز نوڈلز نہ کھاؤں تو مجھے الرجی ہوجاتی ہے۔ اس کو الرجی کا مفہوم ہم دانستہ نہیں بتاتے کہ اس کا معصوم ذہن پھر نوڈلز کے حق میں اور کیا دلیل سوچے گا۔



آٹھ سالہ عدن بھی یاد آرہی ہے بار بار۔ جو سوچتی آنکھوں میں بے شمار سوال لئے مگن چلتی پھرتی ہے۔ کریدنے پر پوچھتی ہے۔ جنت میں اللہ میاں الگ الگ گھر کیوں دیں گے۔ہم سب جنت میں اکھٹے کیوں نہیں رہ سکتے۔ اور کبھی کہتی ہے میرا دل چاہتا ہے میں روبوٹک ہارٹ این برین بنا لوں تاکہ کوئی مر نہ سکے۔ اس کے اندر موجود کھونے کے اس خوف کا کوئی علاج نہیں ہوتا میرے پاس۔ میں تو خود کھو دینے کے خوف سے ہول جاتی ہوں۔



پانچ سالہ ہانیہ ہاتھ میں سٹک پکڑے سیڑھیاں اترتی ہے۔ پوچھا ہانی سٹک کیوں پکڑ رکھی ہے۔ تو بڑی بڑی آنکھیں مزید پھیلا کر کہتی ہے آنا اوپر بھوت آگیا تھا۔ میں نے اس چمتکاری ڈنڈے سے اسے مار بھگایا۔ اس کی زندگی میں۔چمتکار کی حیثیت پر جو بے ساختہ مسکراہٹ آتی ہے وہ مجھے اسے حقیقت بتانے سے روکتی ہے۔سوچتی ہوں کچھ دیر تو معجزوں پر یقین رہے اس کا۔



تین سالہ عدیفہ کہتی ہے میں خود بڑی کیوٹ پیاری ہوں۔
اس سے سچی بات شائد کوئی نہیں پر اس کا بے نیاز انداز دیکھنے کے لئے میں۔جھٹلاتی رہتی ہوں اسے۔
اور پھر ایمل۔۔جو ایمل بلانے پر غصے میں کہتی ہے۔۔۔نو آنا سے جنؤ (جگنو)۔ میں صرف یہ جملہ سننے کے لئے کئی بار ایمل کہہ کے پکارتی ہوں۔
کہ ایمی چھوٹی سی انگلی کھڑی کر کے آنکھیں نکال کر ڈانٹے کہ آپ ایمل نہیں بلا سکتیں۔



کل سے سینکڑوں بار آنکھیں خشک کرتے یہ ہی خیال بار بار آرہا ہے کہ زینب بھی ایسے ہی کسی کا جگنو ہوگی۔ کوئی پیار سے تتلی کہتا ہوگا تمہیں۔ تھی بھی تو تتلی جیسی نازک بے ضرر۔
میں تم سے کیا کہوں کتنے کھوٹے کتنے چھوٹے حرف ہیں میرے۔



لیکن میں پھر بھی ان سے کچھ سطریں گھسیٹنا چاہتی ہوں۔ میں چپ رہ کے ظالم کی خاموش حمایتی نہیں بن سکتی۔
سنو! زینب میں یہ نہیں کہوں گی کہ تم رب سے میری شکایت نہیں کرنا۔۔۔ میں یہ کہنے کا حوصلہ ہی نہیں دے پاتی خود کو۔
میں بس یہ چاہتی ہوں جب تم سب کی شکایت لگاؤ تو پلیز میرا نام کہیں بہت سے ناموں کے درمیان اچانک نہ لینا اور پھر اگلی بات یا اگلا نام شروع کر لینا۔ دیکھو مجھے پتا ہے رب چوکتا نہیں ہے۔ پر ایسے شائد اس کے غضب کا کم ترین اور ادنی درجہ مجھ تک پہنچے۔ میں کیا کروں میں اسوقت بھی سیلف سینٹرڈ ہو رہی ہوں۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ کہیں تم جنت میں رسول خدا کو میری شکایت ہی نہ کردو۔ دیکھو زینب میں تمہاری مجرم ہوں۔ تم مجھ سے حشر میں بدلہ لے لینا۔۔تم اس دن میری دو چار جو ٹوٹی پھوٹی نیکیاں ہیں وہ رکھ لینا۔



تم ابھی مت کہنا رب کے حبیب کو کچھ۔ میرے حوالے سے ایسی اذیت ناک بات ان تک نہ پہنچاؤ پلیز۔
دیکھو میرے پاس بھی تو فقط اس شفاعت کا آسرا ہی ہے نا۔ تم تو اتنی اچھی ہو معصوم ہو رب کے پاس ہو جنت میں ہو۔۔ تم جو اگر میرا نام کملی والے کہ سامنے نہ لو تو کیسا احسان ہوگا تمہارا مجھ پر۔
سنو! میں جب تمہارے جتنی تھی نا تو میں نے کتاب میں پڑھا تھا کہ رسول خدا اس آدمی وہ جس نے بیٹی کو زندہ دفنایا تھا اس کی کتھا سن کر ہچکیوں سے رونے لگے تھے۔
سنو زینب میرے جرم پر رسول خدا کو صدمہ پہنچے گا بہت صدمہ۔ میں تو امتی ہوں۔ دیکھو میں تم ہر بدلہ خود سے ہی دینے کے لئے تیار ہوں۔ تم میرا نام مت بتانا۔۔



اچھا چلو ایک معاہدہ کر لیتے ہیں۔۔۔ تم تو زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو۔ تم جنتوں کی باسی بھی ہو۔
تم حشر کی صبح میری شکایت کردینا۔ اس روز تو بالآخر مجھ سے ہر عاصی کو بھگتنا ہی پڑے گا اپنا ہر جرم۔ تم اس دن میرا نام بتا دینا۔ تاکہ حشر کی صبح تک تو کملی والے اور میرے جرائم کے درمیان حجاب رہے۔
اچھا اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر تمہاری مرضی۔ عاجز کی زور زبردستی تو نہیں چلتی نا۔ مجرم کی مرضی بھی نہیں چلتی۔ میں تم جو چاہے سزا دلوا لو رب سے۔ ہم سب ہی مجرم ہیں تمہارے۔



بس تم رب سے ایک سفارش کردو۔ یہ جو تم سی کئی جگنوؤں میرے آس پاس ہیں۔ جن کو رحمت کی صورت میری بستی میں اتارا ہے تم رب سے ان کے لیے عافیت و امان مانگ لو۔۔
یا پھرعمر فاروق سا کوئی بابا مانگ لو۔ جو سر بازار رب کی قسم کھا کر کہے۔۔ اگر قتل میں ساری بستی ملوث ہوئی تو عمر پوری بستی مٹا دے گا۔ اور اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر روز حشر جوابدہ ہوگا۔ اور جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر گلیوں میں دیوانہ وار پھرتا ہو کہ کوئی راہزن چمن کے پھول نہ نوچ سکے۔
یا پھر کوئی حسین ہی مانگ لو ہمارے لیے زینب۔ کہ جب تک حسین زندہ رہے کوئی کرب و بلا کے موسم میں بھی زینب کے سر سے چادر نہ اتار سکے۔



نہیں تو ہم یونہی روز کوفہ میں جیتے کربلا میں مرتے رہیں گے۔
زینب خدا سے ہماری سفارش کروگی نا؟

No comments:

Post a Comment