Pages

Saturday 27 January 2018

میرا شہر

یہ میرا شہر ہے- اسمیں اگر آپ اسلام آباد کی طرف سے داخل ہوں گے تو ویلکم ٹو ____ سٹی کے ساتھ ہی آپکو کھوئے والی قلفیوں کی لا تعداد دوکانیں ملیں گی- جن میں سے ہر دوکان اصلی  اور  پرانی دوکان ہونے کا دعوی کرے گی-لیکن آپ نے رکنا نہیں جس دوکان کے سامنے چھ کرسیاں دو میز چار موٹے انکلز اور دس بارہ گاڑیاں کھڑی نظر آئیں بس سمجھ لیجیے یہ ہی اصلی سچی تے کھری دوکان ہے- آپ نے یہاں رکنا ہے اور قلفیاں کھانی ہیں- یاد رہے اگر آپ کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے تو بھولے سے بھی کبھی کسی بھی چیز کا لارج جمبو یا بڑا سائز خریدنے کی غلطی مت کیجیے گا.
کیونکہ رزق ضائع ہو یہ اچھی بات نہیں-
لیکن اگر آپ لاہور کی طرف سے اس شہر میں داخل ہورہے ہوں تو شہر میں داخلے کے ساتھ ہی مہران دی برفی کی دوکان ڈھونڈیئے- دوکان کی موٹی موٹی نشانیوں میں شرٹ لیس چار عدد موٹے انکلز بیٹھے دودھ پی رہے ہوں گے- اور یہ برفی دو کلو خرید لیجیے- تاکہ بعد میں آپکو کم خریدنے پر افسوس نہ ہو-
آپ اس شہر میں کسی اور طرف سے جیسے شیخوپورہ، حافظ آباد سرگودھا منڈی بہاؤالدین وغیرہ کی طرف سے داخل ہو سکتے ہیں- لیکن چونکہ ہمارا جغرافیہ بہت ہائی لیول  ہونے کی وجہ سے ہم آپکو وہ نقشہ نہیں سمجھا سکتے-
اب آجائیے شہر کے اندر- بلکہ ٹہریئے۔۔ آپ لوگوں نے  سیالکوٹی دروازے سے ربڑی پی ہے؟؟ تو پھر کہاں منہ اٹھائے گھسے چلے آرہے ہیں جائیے واپس لمبی لائن ہے تو کیا ہوا؟ سب کھانے پینے کیلئے ہی جمع ہیں - لیجیے ربڑی درمیانے گلاس لے لیجیے اگر زیادہ برگر ہیں تو چھوٹا لے لیجیے- اوہو بھئی پی لیجیے نہیں ہے ہیوی-
اب آجائیے شہر کے اندر- یہ اچھا ہوا آپ لوگ تھوڑا جلدی آگئے- دراصل جو ناشتے والی "فوڈ سٹریٹ" ہے نا وہ  سات، ساڑھے سات بجے تک بند ہو جاتی ہے- چلیے گرونانک پورہ کی طرف موڑ لیجیے.
گرونانک صاحب ایمن آباد سے آتے ہوئے اس محلے میں ٹہرے تھے تب سے اسے گرونانک پورہ ہی پکارہ جاتا ہے- یہ اسلامیہ کالج کے ساتھ والی سڑک پر ٹرن لیں۔۔۔ نہ آگے آئیے۔۔۔ بس گڈ ہوگیا۔۔۔ پہنچ گئے ہم غنی کے پائے کھانے- یہ پوری سڑک ہر قسم کے ناشتوں کے لیے مشہور ہے- کیک پیسٹری تازہ باقر خانی سے بونگ سری پائے تک ہر چیز حسب ذوق اور حسب منشاء ملے گی- دودھ پتی سمیت پیڑے والی لسی - پیڑا مکھن اور کھوئے کا گولہ ہوتا - جو آپ کے لسی کے گلاس میں آتا ہے جسے پی کر آپ ٹن ہو جاتے ہیں اگلے کھانے تک۔۔اسے دیسی سکاچ سمجھ لیں- اب یہ بھی ڈر ہے دیسی سکاچ کے نام سے کوئی افینڈ ہی نہ کرجائے-
خیر جب جب اپنے شہر کے متعلق سوچا ذہن میں انواع اقسام کے کھانے ہی آئے-
پچھلے سال نیو یارک ٹائمز نے ہیڈ لائن لگائی تھی _____ "دی سٹی آف حافظ سعید" اور خبر کی تفصیلات پڑھ کے ایسا دل دہلا کہ بس، یعنی ہمیں اندازہ ہی نہ ہو سکا  کہ ہمارے شہر میں پیرالل عدالتیں چل رہی ہیِ جن میں گھوڑے پہ بیٹھ کے جاتے ہیں حافظ سعید اور فیصلے کرتے ہیں- حد ہی ہوگئی-ویسے یہاں حافظ سعید کی شہرت انتہائی انسان دوست کی سی ہے- ان کی تنظیم کے لوگ بھی اچھے خاصے ویل بہیوڈ لوگ ہوتے ہیِں منظم اور مستقل مزاج-
کسی زمانے میں  سہیلیوں کے ساتھ پھرتے پھراتے فوڈ سٹریٹ جا نکلے وہاں جا کر معلوم ہوا یہ ایشیاء کی سب سے بڑی فوڈ سٹریٹ ہے ہم نے آنکھیں پھیلائے سامنے پاپڑی چاٹ لگاتے انکل سے دہرا کر پوچھا ایشیاء میں چائینہ جاپان جیسے ملک بھی آتے ہیں انکل- کہنے لگے جی بیٹا جی- وہ سامنے دیکھیے ____ ان کی دوکان پر سرٹیفیکٹ لٹک رہا ہے- ہم حیران ہوتے، پاپڑی چاٹ کھا کر چکن رول کھانے دوسری دکان میں گھس گئے-
گرونانک پورہ میں ایک نان چنے کی دوکان والے انکل سے پوچھا تھا آپ کے پاس یہ دکان کب سے ہے؟ کہنے لگے دادا پردادا سے یہی کام ہے- چوتھی نسل اسی دوکان میں بوڑھی ہو رہی ہے- سامنے والے گردوارے کے لوگ ہر بیساکھی پر یہاں سے کلچے لگوایا کرتے تھے- پوچھا انکل کبھی کام بدلنے کا نہیں سوچا کہنے لگے بیٹا ہیلے کالج میں پڑھتا ہے۔ ایم بی اے کر لے گا تو اسی دوکان کو وسعت دے گا- رزق کے اڈے میں  شرم کیسی بیٹا جی-
اور اس دن مجھے اپنے شہر پر فخر ہوا تھا- ہم صرف کھاتے نہیں ہیں ہم رزق کی قدر کرنے والوں میں سے بھی ہیں-
گوجرانوالہ میں دوسری بڑی مذہبی کمیونٹی سکھ برادری ہے بیساکھی کا سب سے بڑا میلہ بھی لگتا ہے یہاں ایمن آباد کے قریب- اپریل کے شروع میں آندھیاں لے کر آتا ہے وہ میلہ-
سر کلیان ایک دن کہنے لگے ایمن آباد میں پانچ ہزار سال پرانا گردوارہ ہے- ہماری زبان کے سامنے موجود خندق نے کہا سر سکھ ازم تو سات سو سال پرانا مذہب نہیں سر معصومیت میں سر اثبات میں ہلا بیٹھے اور ہمارے قہقہے پر اپنے مخصوص انداز میں کہتے ڈیین)( ڈائن) اے پوری- تو بتانا یہ تھا کہ بہت سی عمارتیں اپنے تاریخی پس منظر اور فن تعمیر کی بدولت یہاں موجود ہیں جو اپنی پرسان حالی پر انتظامیہ سے شکوہ کناں بھی ہیں اور عہد رفتہ کی یاد بھی دلاتی ہیں-
اندرونی شہر کی تنگ گلیاں اور اینٹوں والے گھر- یا پھر ہندو طرز تعمیر والی لکڑی کی بالکونیاں شہر کے سینے میں چھپے کئی رازوں کا پتا دیتی ہیں-
کالج روڈ پہ گول گپے کھاتے کھاتے ہم نے اس شخص کو ریڑھی سے دو دوکانوں کے فوڈ کارنر پر شفٹ ہوتے دیکھا- یونہی ابا سے کہا ہمیں ہر پاکستانی کی طرح پورا یقین تھا کہ یہ ترقی چور بازاری کی مرہون منت ہے- ابا سے ڈسکس کیا تو بتانے لگے شہر میں ہر روز صبح پائیوں کے سینکڑوں ٹرک آتے ہیں ہر روز کئی من میدہ استعمال ہوتا ہے اور کئی سو بکرے ہماری خوش خوراکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں- رنج و الم کی کسی گہری کیفیت میں مبتلا ہونے ہی والے تھے ہم کہ ابا نے بتایا شہر میں صوبے کی سب سے بڑی فوڈ انڈسٹری ہے- یعنی فوڈ آئٹمز میں سب سے زیادہ  انکم پیدا کرنے والا شہر- اس دن رب کی تقسیم پہ بڑا پیار آیا-اور اپنی بستی کے موٹے موٹے انکلز پہ بھی-
شہر کا نام تو پہچان ہی گئے ہوں گے-
گوجرانوالہ__
شہر میں خواندگی کی شرح اچھی ہے-
ساٹھ ستر لاکھ آبادی کا شہر ہے ساتواں بڑا شہر چوتھا بڑا ڈویژن-
لاہور کا ٹوین سٹی چناب کے کنارے آباد-
ملک کی تیسری بڑی نہر شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہے- جس کے ساتھ ساتھ گزرتی ڈائیو میں بیٹھ کہ ہم نے کئی کردار تراشے ان سے باتیں کی ہیں- پنجاب یونیورسٹی کے کیپمس سمیت چار پانچ پرائیویٹ یونیورسٹیز ہیں شہر میں- لاہور کی ٹوین سٹی ہونے کی وجہ سے گریجویٹ ٹریفک کافی ہے شہر میں-
ایف پی ایس سی کے مطابق مقابلے کے امتحانوں میں سب سے زیادہ امیدوار اسی ڈویژن سے ہوتے ہیں-
تعلیمی لحاظ سے خواتین سارے ڈیپارٹمنٹس میں چھائی ہوئی ہیں-
یادش بخیر جب سی ایم نے مختلف کیٹگریز میں مقابلے کرانے شروع کی تو پرونشل لیول پر اس شہر کی ایک ہی حسینہ ڈیبیٹ مضمون وغیرہ میں سرٹیفیکٹ لیتی رہی- اب بھی اگر کسی کو اس حسینہ کا نام جاننا ہے تو اسے دیوار کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہیے- ہاتھ اٹھا کر-
انڈسٹریل سٹی ہونے کی وجہ سے میل چائلڈ بچپن سے بزنس مائئنڈ سیٹ کا نمائندہ لگتا ہے-
پنجاب میں کیمیکل انڈسٹری کے اولین دنوں میں گوجرانوالہ کا سعودیہ اور چائنہ سے کیمیکل امپورٹ ایکسپورٹ کا سب سے بڑا معاہدہ ہوا تھا جو بعد میں میلا مائن انڈسٹری کی بنیاد بنا اور اب یہ انڈسٹری شہر کی فنانشل بیک بون کا کام دیتی ہے- کھانے کے علاوہ جو کام اس شہر میں ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے وہ کھانے کے متعلق سوچنا ہوتا ہے-
ہر مٹھائی حلوے کا الگ سپیشلسٹ حلوائی شہر میں موجود ہے-
سیلمان والوں کے حلوے
سیالکوٹیوں کے رس گلے حلوہ پوری پھینیاں
جالندھر والوں کے گلاب جامن اور قلاقند
لالہ والوں کا پتیسہ اور چم چم
اور مہراں دی برفی-
میر والوں کی کوکیز
النور کے کیکس
بابا والوں کے سیلڈز
یعنی ہر چیز کا الگ سپیشلسٹ لیکن کم معیاری چیز بھی ویسے ہی بک جاتی ہے- اسے کہتے ہیں سچی محبت- کھانے سے-
ہم رزق کے قدردانوں میں سے ہیں- اسی لیے شائد رب وافر کھانے والوں کو وافر رزق دے رہا ہے۔ شہر میں کھانے کی اس بہتات نے اوبیسٹی کا گل کھلا رکھا ہے ہر پانچھواں شخص اوبیز ہے- کولیسٹرول اور ڈائیبٹیز والے انکل آنٹیاں وافر مقدار میں ملتی ہیں جو ڈاکٹر اور پرہیز دونوں کے لتے لیتے ہوئے پائے جاتے ہیں-
خوش خوراک خوش مزاج بھی ہوتے ہیں لہذا مجموعی طور پر شہر میں دنگا و فساد کم ہوتا ہے ہردوسرا شخص جگت کرتا ملتا ہے- امان اللہ، سہیل احمد کا شہر ہے-
سیاسی لحاظ سے نون لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے- حالیہ سیاسی معاملات نے نئے اور نیوٹرل ووٹر کو کافی متاثر کیا ہے-
سیبایم نے سڑکوں کا جال تو نہیں بچھایا لیکن سٹرکچر کی صورتحال بہتر ہے.
ملک کے مضبوط چیمبر آف کامرسس میں شمار ہوتا ہے گوجرانواکہ چیمبر آف کامرس کا
سپر ایشاء سٹیزن جی ایف سی اور پشاور زلمی والے جاوید آفریدی سمیت کئی بگ فشز اسی چیمبر میں بیٹھے پالیسی سازوں سے ساز باز کرتے پائے جاتے ہیں-
مضمون طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے آپ کی بوریت کا خیال نہ ہوتا تو ڈھول سپاہیوں کے کینٹ اور تقسیم سے پہلے کے پرانے بازاروں میں بھی لے چلتی-ابھی کے لیے بس یہ ہی-
ہاں یاد آیا اگر آپ شہر میں آئیں اور الریاض کی فش ناصر کی چکن کڑاہی خضر کا باربی کیو نہ کھائیں فوڈیز کے گرلڈ سینڈویچز نہ کھائیں تو بتا دیں تعزیت کرنے کب کہاں آجاؤں؟
اور اگر آپ برگر ہیں تو بھی بے دھڑک آئیے سارے مشہور فوڈ چینز کے آؤٹ لٹس ہیں ادھر-بولے تو کھانے سے نہیں چوکتے ہم-

No comments:

Post a Comment