Pages

Tuesday 19 December 2017

سوال سارے، جواب سارے



 
آنکھوں میں کاجل بھی لگا رکھا تھا. جتنا صبح صبح ہم کر سکتے تھے اتنے بال بھی سٹریٹ کر رکھے تھے. نہ محسوس ہونے والا لپ کلر بھی لگا رکھا تھا. عجیب ہے نا جب اجازت نہ تھی ہمیں سجنے سنورنے کا بے حد شوق تھا. پھر اجازت آزادی ملی تو دل اوب گیا
ہم دوسری کلاس میں پہلی رو کی پہلی کرسی پر بیٹھے، کتاب سامنے کھولے، انتہائی دل جمعی سے ساتھ بیٹھی سہیلی سے نیل پینٹ کے شیڈز پر سیر حاصل گفتگو کر رہے تھے۔ ٹیچر کلاس میں آئیں. اٹینڈنس کے بعد پوچھا، آج کیا دن ہے سحرش؟
سحرش: منڈے میم
تاریخ کونسی ہے؟
سحرش: سکسٹین ڈسمبر میم.
کیا ہوا تھا؟
فال آف ڈھاکہ۔
دھیمے پڑتے ہوئے یہ آخری جملہ دہرایا.
مجھے لگا میں چپ تھی، پر نہیں وہ چپ تھیں.
ان کی آنکھ کے گوشے بھیگ رہے تھے۔ چہرے پر سایہ سا لہرایا. ہم خود کو کمپوز کرتے ہوئے فال آف ڈھاکہ کے اسباب ڈسکس کرنے لگے.
مجھے نہیں پوچھنا چاہیے تھا اسوقت یہ سوال.
لیکن پوچھ بیٹھی تھی.
لہجے میں ضدی سا تاثر بھی ہوگا۔
کیوں توڑنے دیا آپ لوگوں نے ملک ؟
کیوں نہیں لڑے آپ لوگ؟
کیوں نہیں سمجھ رہے تھے سامنے کا منظر؟
راہزنوں کو کیوں راہبری سونپی تھی آپ لوگوں نے؟
ادھر ہم، ادھر تم والوں سے اسی وقت جواب کیوں نہیں لیا؟
پٹ سن کی خوشبو والوں سے کیوں نہیں کچھ پوچھا کسی نے؟ ؟
آخری سانس آخری سپاہی آخری ربط تک نہ لڑنے والوں کی پکڑ کیوں نہ کی؟
ریجن کی سب سے ایجوکیٹڈ پولیٹیکلی اییور قوم کو کس نے سول بیوروکریسی سے دور رکھا؟
زہر میں لپٹے سارے ہی تیر چلائے ہوں گے میں نے. اچانک ان کے ہاتھ میں کتاب لرزی تھی۔
وہ زندگی میں زندگی جیسی تھیں. ہاں ناں ایسی ہی تھیں. ان لوگوں میں سے جنہیں دیکھ کر انسان کا زندگی پر ایمان ریسٹور ہوتا رہتا ہے.
ان کا جواب آیا تو بہت مختصر
کہ ہم نے کوشش کی تھی سحرش!
چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز تھا بچے
میں اسوقت نہ ان کا لہجہ سمجھ پائی تھی نہ اس میں بسا کرب محسوس ہوا تھا، نہ درد کی شدت محسوس کر سکی تھی.
انہوں نے آنکھ کے گوشے صاف کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نہ کرے ہماری زندگیوں میں اب اور کوئی سولہ دسمبر آئے.
میں نے بے دلی سے آمین کہا تھا.
اور میری بے دلی سارے خدشوں کو سچ ثابت کر گئی.
میں سپر سٹیشیس نہیں ہو رہی، پر میرے آمین میں جذب نہیں تھا. کیونکہ آپ کا درد بیتا ہی نہیں تھا مجھ پر، مجھ پر کرب کا وہ درجہ گزرا ہی نہیں تھا. میں اذیت کی اس انتہا کو سمجھ ہی نہ پائی تھی تو کیسے کہہ دیتی آمین جذب والی؟
اور رب لاپرواہ بے دلوں کی دعائیں کیوں قبول کرتا. وہ بھی تو بے نیاز ہے ناں ..!!
پھر!! میں پچھلے پورے مہینے سے اس پھر پر آکر رک جاتی ہوں.
ہر رات کا پچھلا پہر اس بھیگے ہوئے پھر کے آس پاس بے بسی سے گزر جاتا ہے.
میں چاہ کر بھی نہ بتا پاتی ہوں نہ لکھ پاتی ہوں.
میں کیسے بتاؤں کہ کرب کی وہ کالی رات جب آئی تھی تو اذیت کس کس پہلو سے دل کو چیرتی ہوئی ٹھہر گئی تھی۔
میری جذب سے خالی دعا کا نتیجہ۔۔۔۔۔۔ہم پر دسمبر سولہ پھر سے بیت گیا.
نہیں بلکہ بیتا کب؟ بلکہ ٹھہر گیا.!!
میں پورا سال ذکر نہیں کرتی ہوں مجھے لگتا ہے میں روز ذکر کرنے لگی تو درد کی یہ لو مدھم پڑ جائے گی. میں آج کے دن ذکر کئے بنا رہ بھی نہ پاتی. مجھے لگتا ہے میں اپنے بچوں کے خون کی سوداگر ہوں. مجھے لگتا ہے میں لاشوں کی تاجر ہوں
مجھے نہیں پتا میرے بچوں کے قاتل، قتل کے منصوبہ ساز یا ان کے حمایتیوں میں سے کس کی رسی ابھی تک دراز ہے. پر مجھے یہ پتا ہے ان روسیاہوں کو اپنے عمل کی توجیہہ اب شائد نہ ملے. اس لئے نہیں کہ میری بستی کے راہبر، راہبری کرنے لگے ہیں. بلکہ اس لئے کہ اب رب جلدی جلدی اتمام حجت کرنے لگا ہے شائد!!
کیسا دوراہا ہے کیسی مشکل ہے؟ کہے بنا بھی چارہ نہیں.کہہ دوں تو دل کسی کل چین نہیں پاتا.
میرے بچوں کے خون کا سرخ رنگ انہیں سرخ رو کر گیا لیکن وہ ہی سرخ رنگ مجھ سمیت ہر بے حس ذمہ دار کے چہرے پر سیاہی بھی مل گیا. مجھے دسمبر اپنے بچوں کا قاتل لگنے لگا ہے.
یہ رستا ہوا زخم، قطرہ قطرہ میرے اندر ناسور بنتا جا رہا ہے
مجھے نہیں پتا میرے بچوں کے قاتل، قتل کے منصوبہ ساز یا ان کے حمایتیوں میں سے کس کی رسی ابھی تک دراز ہے. پر مجھے یہ پتا ہے ان روسیاہوں کو اپنے عمل کی توجیہہ اب شائد نہ ملے. اس لئے نہیں کہ میری بستی کے راہبر، راہبری کرنے لگے ہیں. بلکہ اس لئے کہ اب رب جلدی جلدی اتمام حجت کرنے لگا ہے شائد!!
اب دیکھا نہیں کیسے تم اور تمہارے حمایتی جب جب مرتے رہے میری بستی میں امن اترتا گیا
بنو قریظہ پر توریت میں نازل کئے گئے حکم کی تطبیق کرنے والو! آؤ اور دیکھو! میری بستی کی ماؤں کے حوصلے، وہ جنہوں نے امانت کی طرح لعل واپس سونپتے ہوئے کلے نہیں پیٹے تھے.
مجھے پتا ہے یہ تحریر الجھن ہوئی بے ربط اور جذباتی ہے.
کیونکہ بچوں کے مرثیے ربط میں نہیں لکھے جا سکتے
میں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں
بھولے نہیں ہم، نہ معاف کیا ہے. تمہارا انجام ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے بس اب تمہارے حمایتیوں کا انجام باقی ہے
جو جلد یا بدیر ہم دیکھیں گے..
یہ یقین اس لئے بھی ہے کیوں کہ رب کا وعدہ ہے ناں مکافات عمل کا!!
اور ہاں روز حشر جب ساقیء کوثر کے پاس آؤ گے ناں تو میرے بچوں کا خون تمہارے اور ان کے درمیان نہ پاٹی جا سکنے والی خلیج بن جائے گا. میم! آپ نے سچے دل سے دعا کی تھی تو رب نے اس اذیت سے بچا لیا آپکو. آپ بھی تو نہیں رہیں
لیکن اب میں پورے جذب سے سولہ دسمبر کے نہ آنے کی دعا کرتی ہوں.
آپ یقینا جنت میں ہوں گی، رب آپکے درجات بہت ہی زیادہ بلند کرے
آپکی سٹوڈنٹ کو، کیوں کے جواب مل گئے ہیں میم..!!!

No comments:

Post a Comment