Pages

Friday 14 October 2016

خیال کی موت




اے نظم نگارو!
نظم کہو نا اچھی سی
شاعر__ لوگو
لفظوں کے تم ماہر ہو
جادوگر سے،ساحر ہو
قلم سے صحرا
ہاتھ سے سورج
حرف سے دریا
روشنائی سے اندھیرا.
تراشتے رہتے ہو.
آؤ دیکھو!
میرے حرف ہیں بکھرے بکھرے.
تخیل کے سارے گلستاں
اجڑے اجڑے.
سوچ کے سارے پنچھی.
خواب کے سارے جگنو.
تنہا تنہا بجھتے بجھتے.
خیال کا ساگر
رخ موڑ رہا ہے.
جیسے بچہ آنکھ پہ ہاتھ دھرے
ناراض ہو،اور چپکے چپکے
دیکھتا ہو
کوئی اسے منانے آئے.
کھلونا اس کو لوٹانے آئے.
لفظوں کے ماہر لوگو!
پھر سے کہوں تو ساحر لوگو!
میرے خیال کو واپس لا دو.
حرف تسلی دے کر تم
پھر سے میرا تخیل بہلا دو.
سنو رگوں میں تلخی دوڑ رہی ہے.
سوچ میں زہر یہ گھول رہی ہے.
لفظ رعنائی چھوڑ رہے ہیں.
تلخی کو تم روک سکتے ہو.
زہر کا تریاق ہو بھی سکتے ہو.
تم چاہو تو کر سکتے ہو.
میرے خیال کے نازک رخ کو
ذرہ زرہ بکھرنے سے.
قطرہ قطرہ پگھلنے سے.
روک لو تو اچھا ہے.
خیال کی موت تو مات ہوگی__
تم سب کی شاعر لوگو!
سحرش

No comments:

Post a Comment