Pages

Tuesday 4 October 2016

علم کی شاپنگ


خاتون پورے جوش خروش سے تعلیم کی اہمیت پر "تقریر" فرما رہی تھیں۔ جب حاضرین کو پوری طرح قائل کرچکیں تو کہنے لگیں،بہت کمپیٹیشن ہے۔ ابھی سے زیادہ پڑھائی کی عادت ہوگی تو مقابلہ کر پائیں گے۔ میں تو اپنے بچوں کی پڑھائی کے معاملے میں لاڈ نہیں رکھنے  والی۔بے ساختہ ان کے بچوں کی تلاش میں نظر دوڑائی تو چھوٹی سی بچی پنک فراک میں ملبوس دنیا کے سب سے قیمتی تاثرات، تجسس اور لگن آنکھوں میں بسائےحیرت سے دنیا دیکھتی ہوئی ملی۔معصوم چہرےپر بےساختہ مسکراہٹ۔اس ننھی پری کی کمپیٹیشن لوور ماں جی سے عمر پوچھی۔تین سال پر میں ابھی سے اس کی "ایجوکیشن" بارے بڑی کنسرنڈ ہوں۔خاتون نے انگریزی بول چال کے معاملے کی سنگینی سمجھانے کی کوشش کی کہ تعیلیمی میدان میں بہت 'کمپیٹیشن'ہے

خاتون سے پوچھا دنیا سے مقابلے کیلئے تعلیم دلوائیں گی؟ انتہائی فخر سے بولیں جی بالکل
اور خدا جانے ان کے لہجے کا وہ "فخر" تھا یا الفاظ میں موجود قطیعت۔کہ میرے اندر کا وہ "انقلابی فلسفی" جو تین منٹ پہلے ایک عدد تقریر کا متن ترتیب دے چکا تھا، خاموشی سے اندر ہی کہیں دبک گیا.
کسی  ملال کے ہالے میں دل مضطر نے خزن کی چادر اوڑھی لی۔جیسے مجھ سے بھی روٹھ گیا ہو کہ سب تمہاری غلطی ہے جو منہ اٹھا کر یہاں چلی آئی۔ خود تو آئی آئی، ہمیں بھی ساتھ لے آئی
کسی نے شکستگی سے اندر ہی سرگوشی کی کہ جس قوم میں تعلیم بچوں کو گدھوں کی دوڑ کا گھوڑا بنانے کے لیے مختص کردی جائے وہاں اجتماعی شعور بھاڑ میں نہ جائے تو کہاں جا بسرام کرئے؟
یہاں ناخوب ہی خوب ہے بی بی!! باہر کی چپ نے اندر کہیں گویائی پا لی۔سنو جیسے غلامی میں اقدار بدل جاتی ہیں ۔ جیسے کمزور جبر کو صبر سے تعبیر کرنے لگتا ہے اور طاقتور اختیار کو جواب دہی سے بالاتر تصور کرنے لگتا ہے۔ویسے ہی انسان مقابلے کی دوڑ میں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ رب نے اسے الگ تدبیر پر الگ تقدیر دے کے پیدا کیا ہے۔جیسے مختار مسعود لکھتے ہیں کہ غلامی میں صدیاں کھو جایا کرتی ہیں بالکل ایسے ہی خود ساختہ معیار بناتے، ان کا پیچھا کرتے  نسلیں گم ہوجایا کرتی ہیں۔ہم بھی تو کئی نسلوں سے یہ ہی کر رہے ہیں۔ہیں نا؟؟
ہم بھی تو بغیر مقصد کے ہی جیے چلے جاتے ہیں؟؟ بلکہ مقابلہ کیے چلے جاتے ہیں؟
ہم ڈاکٹرز ،انجینئر، وکیل، پروفیسر بناتے بناتے، کامرس پڑھاتے پڑھاتے انسان بنانا ہی بھول بیٹھے ہیں۔اب ہمارےارد گرد پیسے بنانے والی مشینیں تو ہیں۔پر انسان نہیں
پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ڈاکو بن چکے ہیں، وکلافراڈ کرتے ہیں، صحافی جھوٹ بولتے ہیں، منصف انصاف نہیں کرتے، ادیب سچ نہیں لکھتے، شاعر حسن نہیں بوتے اور دانشور دانش کشید نہیں کرتے اورمولوی مذہب بیچتا ہے
بھلا یہ سب کیسے ممکن ہو؟ منصف کیسے انصاف کرے؟ انصاف بہادر لوگوں کا وصف ہوتا ہے جو ہم اپنے بچوں کو سکھاتےہی نہیں ہیں.صحافی سچ کیسے بولے؟؟ سچ اور اعلی ظرفی لازم ملزوم ہیں اور ہم قومی حیثیت میں اس وصف سے محروم ہیں اور مولوی مذہب کیوں نہ بیچے؟ جس جنس کی مانگ ہوگی وہ تو منڈی میں آئے ہی گی نا۔ہم نے سیکھاہی نہیں آج تک۔ کہ جہاں سر تسلیم خم کرنا ہو وہاں سودے نہیں کرتے
ڈاکٹر کیوں نہ ڈاکو بنے؟؟ انسانی رویے اس کی ڈگری نے نہیں سکھانے تھے۔اورشاعر کہاں سے حسن بِیجے؟؟
حسن خوبی گھر کی کھیتیاں تو نہیں ہوتیں۔ان کے لیے تو نرسریاں لگانا پڑتی ہے۔ محنت کرنا پڑتی ہے
یہ سب افرادبھی تو اسی کل کا جزو ہیں ۔ تو ان کی خود غرضی پر پھر شکوہ کیسا؟؟ ہم بھی تو تین تین سال کہ بچوں سے ان کا بچپن چھین کے مقابلے کا پکاپن انسٹال کرتے ہیں۔ ہم بھی عجیب ہیں اور ہمارے معیار بھی..پورے معاشرے کو ہی ہم نے کھیوڑہ بنا دیا ہے۔ جسے دیکھو نمک ہوا پھرتا ہے
تعلیم جسے مینار نور بننا تھا صرف ڈگری بن کر رہ گئی ہے۔وہ جس "اقرا" کے اجالے سے ہم نے دلوں کے حکمراں بننا تھا، وہ اجالا کسی "مقابلے" کی تیرگی کی نظر ہوا۔وہ علم جس کی روشنی سے ہم نے اپنے لوگوں کے ذہنوں سے تعصب نکالنا تھا۔وہ تو خود تعصب کا شکار ہوگیا
ہمیں سکول کالج یونیورسٹی بھیج کر اپنے بچوں کوباشعور، ویل مینرڈ، مہذب، کلچرڈ اور باکردار نہیں بنانا..ہمیں تو بس ڈاکٹرز انجینئرز،وکلا اور پروفیشنل ڈگری ہولڈر گدھے درکار ہیں۔ جو اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ "ڈالرز" کما سکیں.ہمارانام "روشن" کر سکیں.اور چاہے اس چکر میں زندگی انہیں گزار کر چلتی بنے
سحرش.

No comments:

Post a Comment