Pages

Monday 19 June 2017

باپ، والد، یا پدر: ایک دلگداز تذکرہ، خاص دن سے ورا


یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو بن باس کاٹ رہا ہے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے۔ یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو بچوں کی پیدائش پر اپنی ضرورتیں مختصر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ دن ہر اس باپ کے نام، جو دن بھر کی تھکن لیے گھر لوٹتا ہے اور دروازے پر منتظر بچے کی انگلی تھام کر دہلیز سے ہی لوٹ جاتا ہے ۔۔۔ آئسکریم دلانے کے لیے ۔۔۔ کسی کوفت کے بغیر۔ 
یہ دن دنیا کے ہر باپ کے نام!
جیسے مائیں یونیورسل ہوتی ہیں نا، ویسے ہی باپ بھی یونیورسل ہوتے ہیں۔ مینجر، پروائیڈر، ان سنگ ہیروز، لیس ایکسپریسو اور بہت حساس۔
جی بالکل، باپ بھی حساس ہوتے ہیں۔ بس بتاتے نہیں ہیں، کیونکہ بتانے سے ان کے بچے پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ ان کے ابا ایموشنل ہیں۔ تو ابا ایموشنز سائیڈ پہ کر کے پریکٹیکل ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کا احساس تحفظ جڑا ہوتا ہے نا اس سے۔
اور باپ سے جڑے احساس تخفظ کو سمجھنا ہو تو اس بچے کی آنکھ میں جھانک کر دیکھ لیں جو باپ کی انگلی تھامے سڑک کنارے چل رہا ہوتا ہے۔ کبھی انگلی چھڑا کر سڑک پر لگے پودوں کو چھیڑتا ہے تو کبھی آتے جاتے بلیوں کتوں سے الجھتا ہے۔ پتا ہے کیوں؟ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ابا کے ساتھ ہوں ۔۔۔ کچھ ہوا تو سنبھال لیں گے۔
کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پر لکھتے ہوئے آپ بلینک ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی انہی میں سے ایک موضوع ہے، جو مجھے بلینک کردیتا ہے۔ کوئی اس شخص کے متعلق کیسے کچھ لکھ سکتا ہے جو زندگی بھر اپنے لیے کسی سے نہ الجھا ہو۔ وہ جس نے اپنے لیے ڈیو سپیس بھی نہ مانگی ہو۔ وہی شخص اپنے بچوں سے محبت ہی تعلق کا معیار بنا لے تو کوئی اس کے بارے میں کیا لکھے؟ خاموش پروائیڈر وہ شخص جب اپنی تکیلف نہیں بتاتا کہ بچے پریشان ہو جائیں گے۔ اس شخص کو لفظوں میں کون بیان کرے اور کیسے؟
پچھلے دو ہفتوں سے میں جملے لکھتی مٹاتی ہوں۔ لفظ تراشتی ہوں۔ ان میں رنگ بھرتی ہوں۔ حرفوں کے ہیر پھیر سے آہنگ بناتی ہوں۔۔۔۔۔اور میں ہار جاتی ہوں۔ اس ایک ایکٹ کے سامنے جب ایک سیلف لیس شخص مجھے ساتھ لگا کر ماتھا چومتا ہے۔
اور میرا سارا تخیل میرے سامنے بے بس کھڑا رہ جاتا ہے۔ میں جو بیٹھے بیٹھے ستاروں سے کہکشاؤں تک کا سفر لفظوں میں طے کر لیا کرتی ہوں، اس ایک جملے کے سامنے گونگی ہو جاتی ہوں جب کوئی کہتا ہے تم لوگ میرے جگر کے ٹکڑے ہو۔
یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو بیٹی کی پیشانی چوم کر اسے سر اٹھا کر جینے کا اعتماد بخشتا ہے۔ یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو جگر کا ٹکڑا کہہ کر بیٹی کے لہجے میں اعتماد بھرتا ہے۔
یہ دن ہر اس شخص کے نام، جو اپنے بہترین دن کسی کےمستقبل پر وار دیتا ہے ۔۔۔ بغیر کسی صلے کی خواہش کے۔ یہ دن ہر اس شخص کے نام جو سفر، موسم، بیماری، وطن سے دوری کی پروا نہیں کرتا ۔۔۔۔ کیونکہ اس سے اس کے بچوں کی مسکراہٹیں جڑی ہوتی ہیں۔
یہ دن دنیا کہ ہر باپ کے نام، جو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے سے لے کر پرواز کے لیے پر مہیا کرنے تک ہر ہر موڑ پر بچوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ جب جب اس کے بچے تھکنے لگتے ہیں وہ مصنوعی غصے سے ان کی تھکن کو توانائی میں بدل دیتا ہے۔ جب جب اس کے بچے حوصلہ ہارنے لگتے ہیں وہ ان کی پیٹھ تھپک کر، زندگی کی امنگوں کے قصے سنا کر، ڈانٹ کر ان کو زندگی کی طرف لوٹنے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ یہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنی محنت کی کمائی اپنے بچوں پہ انوسٹ148 کر کے خوش ہوتا ہے۔ یہ باپ ہی ہو سکتا ہے جو راہ کے سب کانٹے اس لیے سہتا رہتا ہے کہ اس کے پیچھے آنے والے اس کے بچے درد سے ناآشنا رہیں۔
مجھے نہیں پتا اس تحریر کو مکمل سا تاثر کیسے دینا ہے. یا پھر یہ کیسے بتانا ہے کہ ابا کیا ہوتے ہیں۔
لمبے لمبے فقرے لکھ کر مٹا چکی ہوں۔ ذہن پر زور ڈال کر کوئی ایسا منظر ڈھونڈنا چاہتی ہوں جس پر اس تحریر کا خاتمہ کروں۔
لیکن ذہن بار بار بھٹک کر اس منظر کا قیدی بن جاتا ہے ابا، جب بیٹی کی رخصتی پر آپ بے ساختہ کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔
پتا ہے آپکو ۔۔۔ بہت سوں نے تو وہ منظر دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ بہت سوں کے لیے آپ تھک گئے ہوں گے۔ لیکن ایک لمحے کے ہزارویں حصہ میں ۔۔۔۔۔ جب آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسا کر زیاں اور تاسف اور اضطراب کا اظہار کیا تھا ۔۔۔۔ آج چار ماہ بعد بھی میرے اندر اسی منظر کی بازگزشت ہے۔ یہ محبت کا شاید وہی درجہ ہے جسے رب نے قبولیت سے نوازا ہے۔
اس فنکشن پر جب آپ سب کو ڈانٹ رہے تھے اور سب کو آپ بےچین لگ رہے تھے۔
اس وقت آپ کی آنکھوں کی سرخی میں جو کرب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ محبت کی چغلی کھا رہا تھا۔ جس کے سامنے دو جہاں بھی چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔
آپ کو بتانا تھا آپ کے بچے آپ کو رہتی دنیا تک قائم و دائم، خوش و خرم دیکھنا چاہتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment