Pages

Thursday 6 July 2017

ہم کس گلی جا رہے ہیں


ہم کس گلی جا رہے ہیں۔
 ارے ارے رکیے تو ۔آپ لوگ ہلکا سا صحیح اور ہلکا سا غلط سمجھ رہے ہیں۔ ہم ابھی سر لگانے کے موڈ میں نہیں۔ گوکہ عاطف اسلم جتنے سریلے تو ہم ہیں ہی اور بولیں تو ایسے ہی لگتا ہے کوئل کوک ووک رہی ہے۔ لیکن ایک دفعہ پھر رکیے ہم یہاں اپنے سریلے آہنگ کی ایڈورٹائزمنٹ ہرگز نہیں کرنے والے۔
 ہم تو یہاں ایڈورٹائزمنٹ کی دنیا کے سُر بلکہ بے سُرے راگ بیان کرنے کی جسارت کرنے لگے ہیں۔ بات وہاں سے شروع ہوئی جب ہم نے حسب عادت حسب معمول اور حسب ذائقہ فون استعمال کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے میں بری طرح مصروف تھےکہ لیمن میکس کا ایڈ نظر سے گزرا جسمیں بیٹا ماں باپ بہن بھائیوں سے چھپا کہ بیوی کے لیے بریانی قورمہ لاتا ہے_ اور جھوٹ بولتا ہے کہ اسے بھوک نہیں بعد میں ‍ سارے گھرانے سے چھپ کے اپنی بیوی کے ساتھ وہ بریانی کھاتا ہے_ واہ کیا ہی خیال آفرینی تھی ایڈ میں۔ اگلا ایڈ کیو موبائل کا تھا ماہیرہ خان انتہائی غیر مناسب لباس میں بہترین سیلفی لینے پیرس نیویارک گھوم رہی تھی ۔تیسرے ایڈ میں وسیم بادامی آبشار کے سرہانے سے حسن یوسف چرا کر صابن بناتے ہوئے پائے گئے۔ کہانی میں ٹوئسٹ آیا اور پیپسی کے بتائے ہوئے ابا جی کے ظلم وستم پر ہماری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔
 اور کوک نے جب میرے چلر کو دگنا کرنے کا بتایا تو جی چاہا جمبو سائز بوتل میں سٹرا ڈال کہ پیا کرو کیا ہی نیک دل لوگ ہیں  اور جب آخری ایڈ میں سجل خان کے بتانے پر اپنے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ انتہائی واہیات لگنے لگا۔ تو ہم نے گھبرا کر ٹی وی بند اور اپنا فون آن کر لیا۔ بھئی ہماری بلا سے جو ٹی وی دیکھتے ہیں ان کا ہیڈک ہے ہم کیوں سر کھپاتے پھریں۔ لیکن ٹوٹل تین منٹ ہی فون استعمال کیا ہوگا کہ اندر کے ہٹ دھرم فسادی نے کانسنٹریٹ کرنے سے انکار کردیا۔
 اب جیسا کہ تقریبا آپ سبھی کو معلوم ہے کہ سکرین سکرول اپ اور سکرول ڈاؤن کرنا کسقدر توجہ طلب کام ہے- اور اس منتشر خیالی کے ساتھ یہ کرنا ممکن نہیں تھا- لہذا فون گود میں رکھ کر لگے سوچنے کہ یہ ہم کس گلی جا رہے ہیں؟ کہاں گئے وہ سب مشرقی روایات والے سوشل مینرز والے ایٹی کیٹس کے ٹے پر ناک سکورنے والے سب کیا ہوئے؟ یہ ہم ایڈورٹیزمنٹ کے نام پر کیا سلو پوائزن بلکہ سویٹ پوائزن اپنی نسلوں کو دے رہے ہیں؟ چپ چاپ بلکہ ہنسی خوشی؟ کبھی گھی پر پورا خاندان ناچتا ہے تو کبھی اماں ابا سے چھپا بلکہ اپیرنٹلی انہیں دھوکہ دے معاملات سلجھاتا ہے۔کولا ڈرنکس پی کر بچے باپ سے زیادہ باشعور ہونے لگتے ہیں۔ شاعر آج کہتے تو یوں کہتے ہم ایسے کل کمرشلز قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں- یہ اشتہار کسقدر خاموشی سے جھوٹ کو دھوکے کو خوش نما بناکر پیش کرتے ہیں کہ ہمیں گمان بھی نہیں گزرتا کہ جس بات کی تبلیغ کی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔
 آج کی دنیا میں ہمیں تو اپنے بچوں کو سچ بولنا سیکھانا ہے تاکہ وہ اپنے معاملات میں کھرے ہوں۔ دنیا انہیں دھوکے باز بدیانت نہ سمجھے۔ ہمیں تو اپنے بچوں کو کمٹمنٹ نبھانے والا بنانا ہےتاکہ وہ اوروں کے ساتھ کیے وعدے پورے کریں ۔اور دنیا ان کے ساتھ ڈیلنگز کرتے ہوئے ڈرے نہیں۔ پر افسوس ہم عجیب قوم ہیں چار چار سال کے بچے کے ہاتھ میں ٹی وی کا ریمورٹ دے کر  مطمئن زندگی گزارتے ہیں- باپ اے ٹی ایم مشین اور مائیں برینڈ ایمبیسڈرز۔ پھر دو چار سال گزر جائیں تو یہ ماں باپ شکوہ کرتے ہیں بچے بات نہیں سنتے۔بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ بچے دھوکہ دیتے ہیں۔ بچے ایگریسو ہیں اور بچے غصیلےہیں۔ کیا ہم پاگل ہیں؟ بند گلی کا سفر اختیار کرکے ہم منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
 ذرا سے تھوڑا سا زیادہ سوچیے!یہ بچے، یہ نسلیں میری، آپکی، ہم سب کی ذمہ داری ہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیے ورنہ زمانہ تو چال قیامت کی چل ہی رہا ہے

No comments:

Post a Comment