Pages

Monday 19 June 2017

دیوانوں سی نہ بات کرے



تمہیں پتا ہے میرا جی چاہتا ہے کہ میں کسی دن رب سے کہوں کہ مجھے اک اور آسمان دو تاکہ میں لمبی اڑان بھر سکوں

مجھے اڑنے کے لیے ایک اور فضاءچاہیے.جس میں میں ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح زندگی وموت سے بے نیاز نفع و نقصان سے اوپر کہیں بہت دور ،بہت دور ایک نئے جہان کی دریافت کی بے انت مسافتوں میں کھو جاوں

پتا ہے ڈار سے بچھڑی کونج آسمانوں کی طرف کیوں لپکتی ہے؟ کیونکہ اسے کھونے کا خوف لاحق نہیں ہوتا۔ وہ تو پہلے سے ہی اپنا سب کچھ کھو چکی ہوتی ہے۔ اپنا قبیلہ، اپنی شناحت، اپنے لوگ، پھر وہ ان جہانوں کی مسافر بن جاتی ہے جہاں فاصلوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور جہاں سفر ھی منزل ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی کسی جہاں کی تلاش ہے مجھے بھی۔ جہاں مسافت ایسی لمبی ہو کہ سانس تھمنے لگیں اور شوق سفر نہ جائے۔ جہاں راستے کے پتھر بھی نشان منزل لگیں، جہاں آبلہ پائی اور تیز اور تیز چلنے کا حوصلہ دے۔جہاں منزل کی ہوس نہ ہو، جہاں کھونا ھی پانا ہو-دل چاہتا ہے اس سے کہوں یارب، اب مجھے بدلے ہوے معیارات والی دنیا دے،وہ جس میں کوئی شب نہ ہو،کوئی شب غم۔وہ جس میں کسی کی آنکھ اگر پرنم ہو۔تو  اس کی وجہ اس جیسا  جیتا جاگتا انسان نہ ہو۔
اپنے بندے میں اڑنے کی خواہش بھی تو اسی نے ہی رکھی ہے ۔ پھر اسی کے دوسرے بندے اس پر خفا کیوں ہوتے ہیں؟
ان کو خفا ہونے کا حق ہی کیوں دیا تھا؟ کیا انساں چاند سیاروں ، ستاروں کی طرح اپنے اپنے مدار میں خاموش سفر کرنے والا نہیں ہو سکتا تھا؟ جو کسی کے دائرے میں یہ سوچ کر نہیں گھستا کہ اپنی حد سے تجاوز کیا تو نقصان اٹھاؤں گا۔
اب کہو گے یہ بات انسان کے ذاتی فیصلوں پر چھوڑ دی گئی۔یہ فیصلے کا اختیار دے کر جو بے اختیاری زمیں پر اتاری گئی ہے ، یہ بھی سخت بے اطمینانی کا باعث ہے۔
مستقل بے چینی ہے فیصلے کے غلط ہونے کا خوف، اپنے فیصلوں سے کسی کی دل آزاری کا ڈر۔سنو وہ چاہتا تو خوف کے بغیر والی دنیا بھی تو بنا سکت تھا نا۔
پتا ہے اس کی دنیا میں سارے جاندار مجھے انسان لگتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے ہر جاندار کے محسوسات ہوتے ہیں۔ جیسے___ جیسے واک کرتے ہوئے مجھے چاندنی دھیمے سروں میں مسکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اور چاند چاندنی سے رومینس کرتا ہوا۔
تم اس لفظ پر مسکرا رہے ہو نا رومینس پر___سنو یہ لفظوں کی تشریحات بھی تو ہماری ذاتی ہی ہیں نا معاشرتی سی۔
خیر مجھے چاند چاندنی کو محبت پاش نظروں سے تکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
محبت کوڈ ہے نا اس کائنات کا؟ جب کبھی بارش ہونے سے پہلے بادل آسماں کو ڈھک لیتے ہیں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کائنات محبت کے گہرے سرمئی رنگ جیسی ہے۔گہری خاموش اسرار چھپائے ، خود پر نازاں۔
محبت کے بھی کتنے سارے رنگ اور کتنے روپ ہوتے ہیں۔ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق  محبت کرتا ہے۔ محبت کو سمجھتا برتتا ہے۔کوئی چہرے پر مر مٹتا ہے اور کسی کو چہرے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔
مجھے لگتا ہے محبت بھی ہرشخص پر، ہر شئے پر، اس کے مزاج کے رنگ میں اترتی ہے۔الگ الگ انداز میں۔ کسی پر منصور کی مانند بے باک۔کسی پر سوہنی کی کی طرح نتائج سے بے پرواہ۔کبھی فرہاد کی مانند محنتی تو کبھی بلھے کی طرح عاجز۔
کسی پر محبت بہاروں کا گلابی پن  کر اترتی ہے آنکھ کے ڈوروں سے عارض کی آنچ تک، ہر شئے گلابی لو دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اور کسی کے لیے خزاؤں کا سنہری رنگ بن جاتی ہے، زرد پتوں سے بھی زندگی ٹپکنے لگتی ہے۔
کبھی محبت تپتی دوپہروں کے جوبن جیسی اتر آتی ہے کسی کے من کو جلا کر خاک کر دینے والی۔نہیں بلکہ کندن بنانے والی۔ محبت کبھی خاک نہیں کرتی ۔ نہ رشتوں کو، نہ جذبوں کو، نہ عزت کو، نہ تعلق کو ۔یہ تو نمو دیتی ہے جلا بخشتی ہے۔
جیسے محبت میں رب نے یہ کائنات بنا دی۔
کبھی محبت شاموں کے گلابی پن کی طرح اترتی محسوس کی ہے؟ مدہم مدہم، ہولے ہولے، رفتہ رفتہ کسی کے دل میں گھر کرتی ہوئی جیسے سہ پہر ڈھل کر گہری شام کے درمیان کا وقت ہو۔آسماں کی آنکھ سے قطرہ قطرہ ٹپکتا ہوا دن کے کٹورے کا آخری منظر۔
محبت بھی مجھے محسوسات کی حامل لگتی ہے جو اترنے سے پہلے بندے کی پہچان کر لیتی ہے۔
تم نے سوہنی کا قصہ پڑھا ہے نا؟ 
کچا گھڑا شوریدہ سر چناب اور ملنے کا وعدہ ۔یہ محبت خالص سوہنی کے لیے اتری تھی اس کے مزاج سے میل کھاتی ہوئی۔اب اس کا مزاج لفظوں میں کیسے لکھ دوں؟؟ یہ تو چناب کے بیلوں میں بسنے والوں کو سمجھ آتا ہے۔اسی کارن تو ہر علاقے ہر خطے کی اپنی لوک کہانی ہوتی ہے۔ محبتوں کی اپنی اپنی داستانیں ہوتی ہیں۔
صحراؤں کے باسی عمروماروی سے واقف ہیں۔یہ کمبخت محبت ماروی پر طنطنہ بن کر اتری تھی۔ورنہ کون تھا جو خیام کو انکار کی جرات کرتا۔
سنو! مجھے لگتا ہے خیام کی رباعیوں میں محبت نے صحرا بھرا ہے۔
تم نے پڑھی ہیں نا خیام کی رباعیاں؟ محبت اور اداسی کی صحیح مقدار لفظوں میں گھول دی جائے ، تو خیام کی رباعی بنتی ہے دھیرے دھیرے من میں اترتی ہوئی۔جیسے سردیوں کی بارش ہوتی ہے۔ مسلسل گرتی رہتی ہے پر پانی جمع نہیں ہوتا۔ خنکی کے احساس میں گھلتا اداسی کا کوئی ساز سا ہوتا ہے جو بجتا رہتا ہے۔
مجھے تو بارش بھی احساسات کا مجموعہ لگتی ہے۔ پہاڑ اور ان پر جمی برف، نیچے بہتی جھیل۔ اس کی تشبیہ کسی کی آنکھیں ۔ یہ سب مجھے قصے کہانیاں سناتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
پر تم نہیں سمجھو گے شائد__ یہ دیوانگی کا عالم کوئی دیوانہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
تمہیں پتا ہے میں سائیکا ٹرسٹ کو کیوں نہیں ملتی؟؟
کیونکہ میں سمجھتی ہوں دیوانوں سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟

1 comment: