Pages

Tuesday 28 August 2018

گر تم اجازت دو


گر تم اجازت دو
تو اس چپ کا نام وحشت رکھ لوں۔
جس میں تم چپ ہو
اور لفظ نشتر بن کر
خنجر کی انی کی مانند 
میرے ذہن و دل چیر رہے ہیں۔
گر تم اجازت دو تو 
اس چپ کا نام اداسی رکھ لوں۔
جس میں تم چپ ہو۔
اور لفظ برسات کے بعد کے حبس کی مانند
میرا سانس روکے کھڑے ہیں۔
گر تم اجازت دو تو اس چپ کا نام مرگ ناگہانی رکھ لوں۔
وہ جس میں تم چپ ہو
اور لفظ چاک گریباں
سر پہ خاک ڈالے۔
بین کر رہے ہیں
میری حساسیت کی موت کا پرسہ دے رہے ہیں۔
تم اجازت دو
تو اس چپ کا نام محبت۔۔۔
محبت کی موت رکھ لوں
اس چپ کا نام بلیک ہول رکھ لوں
جہاں سارے جذبے 
سارے لفظ
ساری خاموشیاں
سارے دکھ
ساری خوشیاں
ٹہر جاتے ہیں۔
یا مر جاتے ہیں۔
سنو یہ چپ ویسی ہے۔
بلیک ہول جیسی۔
جہاں میرے لفظ
ان کا آہنگ
شاعری کے ہجے
شاعر کا لہجہ
گائیک کے سُر
سُروں کا تال
تال پہ بنی کوئی مدھر دھن
اس دھن کو گنگناتی
کسی شاعر کی پہلی محبت۔
سب مر رہے ہیں۔
تم اجازت دو
سخن کو اجازت دو
تو یہ چپ ٹوٹے
کاروبار حیات چلے۔
وحشت کی رات ٹلے۔

سحرش عثمان
2،7،18

No comments:

Post a Comment