Pages

Tuesday 28 August 2018

امید


صوفے پر ابا بیٹھے تھے ان کے ساتھ آٹھ سالہ عدن اور چئیر پہ بہن بیٹھی تھی، جب کمرے میں داخل ہوئی تو تین نسلیں آنکھوں میں نمی لیے ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔
پہلے سوچا دوسرا ٹی وی لگایا جائے یا پھر یو ٹیوب پر جایا جائے کہ کانوں میں بچت کی آواز پڑی۔ قدم وہیں جم گئے اور کسی کے مضبوط لہجے میں کی گئی گفتگو دھڑکنوں میں اترنے لگی۔
خان صاحب آپ کو ووٹ دیتے اس سے پہلے سوشل میڈیا پر لڑتے کئی بار دل میں خیال آیا ایسی جگہ پر کیا بات کی جائے جہاں استدلال یہ ہو کہ کیا ہمارے ماں باپ غلط تھے یا ہیں؟ کئی بار جی چاہا سب کچھ چھوڑ چھاڑ جنگلوں صحراؤں میں نکل جایا جائے۔ کہ پتھروں سے سر پھوڑنا کب تک ممکن ہوتا۔پر آپ نہیں مایوس ہوئے کبھی۔
اللہ نے ہمارے ہاتھ میں صرف کوشش رکھی ہے کامیابی اس کے ہاتھ میں ہے۔خان صاحب اس بات کو میرے ایمان کا حصہ بنانے کا شکریہ۔
آج نم آنکھوں کے ساتھ آپ کا خطاب سنتے ہوئے سارے منظر یاد آرہے تھے۔ خان صاحب آج بھی مئی دو ہزار تیرہ یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر رویا ہے کوئی۔ پہلے خیال یہ تھا کہ مضبوط لوگ روتے نہیں پر خان صاحب جب آپ کو مسکراتے چہرے پر اٹل ارادوں والی آنکھیں صاف کرتے دیکھا تو یقین ہوگیا مضبوط لوگ بھی روتے ہیں پر جنگ جیتنے کے بعد بھلا آپ سے مضبوط کون ہوگا۔ بائیس سالوں کی محنت ہم ہوتے تو کب کا حوصلہ ہار چکے ہوتے۔ اس مضبوطی پر رب کا شکریہ۔ اور اس مضبوط روییے کے اظہار کے لیے آ پکا شکریہ خان صاحب۔
آج جب آپ نے زینب کا ذکر کیا تو آنسوؤں نے ساری سکرین دھندلا دی۔ صرف آنسو پونچھتی عدن نظر آئی۔ وہ آٹھ سالہ بچی جو آج بھی یہ دعا مانگتی ہے کہ جانور قربان کرنے کا کوئی اور طریقہ متعارف کیا جائے کہ چھری سے بہت تکلیف ہوتی ہے خان صاحب۔ اس حساس بچی نے نیوز چیلنز سکول اور گھر کی حفاظتی تدابیر میں زینب کا خوف اور اس کی تکلیف محسوس کی ہے آج اس کی آنکھوں میں آنسو یہ گواہی دے رہے تھے۔
آپ کو پتا ہے آج آپ بولتے ہوئے بارش جیسے لگ رہے تھے۔ اندر باہر سیراب کرتی ہوئی۔ زندگی کی نوید دیتی ہوئی خوشحالی آجاتی ہوئی آپکی آواز بارش کی آواز جیسی لگی کو انوکھی زمینوں پر گرتی ہے تو دھڑکنوں کا جلترنگ بجاتی ہے۔
آپ مدرسے کے بچوں کی بات کر رہے تھے تو مجھے تیمور یاد آیا جو مدرسے میں پڑھتا ہے اور جسے میں ہر دوسرے تیسرے ہفتے مسجد والوں سے جھگڑا کر کے گھر لے آتی ہوں۔ افغانی بچہ ہے چھ سال کا ماں نہیں ہے باپ مسجد کے باہر چھلیاں لگاتا ہے بچہ مسجد میں رہتا ہے۔ جب پہلی بار کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ایک لڑکے کو،اسے دھمکاتے دیکھا گلی میں جا کر اس بڑے لڑکے کی پھینٹی لگائی تھی تو اسوقت بھی دل خون کے آنسو رویا تھا کہ یہ بچہ ریاست کی ذمہ داری کیوں نہیں ہے۔ مسجد والے ہمسایہ سمجھ کہ برداشت کرتے ہیں اور بچہ ہمدرد سمجھ کہ دوڑا آتا ہے۔ پر یہ مسئلے کا حل نہیں تھا۔ آج آپ کو مدرسہ کے بچوں کو اون کرتے دیکھا تو جی چاہا ابھی جاؤں مسجد کا دروازہ کھٹکھٹاوں مدرسہ میں جا کہ تیمور کو بتاؤں دیکھو تمہاری بات کی خان نے۔ دیکھو اب تم باقاعدہ پڑھو گے۔خود مختار ہوگے۔
جی تو اسوقت بھی اڑ کے ناشتہ والی سٹریٹ میں جانے کا چاہا جب آپ نے سٹریٹ چلڈرن اور سکولوں سے باہر بچوں کی بات کی۔میرا جی چاہا ان سارے بچوں کو اکٹھا کر کے بتاؤں کہ تم لوگ اب لاوارث نہیں رہے۔
جب آپ نے کہا نا معذوروں کا خیال رکھیں تو عینی یاد آئی نمرہ یاد آئی عافیہ یاد آئی عائشہ یاد آئی یہ سارے وہ دوست ہیں جن کو ذہنی معذوروں کا معاشرہ معذور سمجھ کر اپنے ظرف کا مظاہرہ کرتا ہے۔ خان صاحب۔ جی چاہا ان سب کو میسج کروں کہ اب تم لوگ بے سہارا نہی رہے۔
جب آپ نے بتایا کہ بیوہ نے خون سے خط لکھا تھا آپکو تو مجھے وہ بیوہ یاد آئی جس کا بچہ میرے پاس آتا تھا۔جب ماں کو دیس نکالا ملا تو وہ بچہ میرا ہاتھ پکڑ کے پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ اس نے کہا تھا اپنے پاس رکھ لو۔اور میں چاہ کر بھی جواب نہیں دے پائی تھی۔ آج جی چاہتا ہے مظفرآباد کے اس دور افتادہ گاؤں میں فون ملاوں ان سے کہوں ولید سے بات کروائیں اور جب وہ کروائیں تو ولید سے کہوں۔۔۔ دیکھو ہم دونوں اب بے بس نہیں رہے تم لوٹ آؤ مجھے اس احساس جرم سے نکالو میں تمہیں یہاں اسکول بھیجوں گی۔ ہم دونوں خواب دیکھیں گے اسے تعبیر کریں گے۔
میرا جی چاہ رہا ہے میں ساری دنیا کو چلا کر بتاؤں اب ہم لاوارث نہیں رہے۔ اب ہمیں آنکھیں نہ دکھائے کوئی۔ ہم سے برابری کا سلوک کرنا پڑے گا۔کہ اب ہم نے ریوڑ اور ہجوم سے قوم بننے کی طرف سفر کا آغاز کردیا ہے۔
میں یہ ساری باتیں کروں گی۔ لیکن خود کو سنبھال لوں۔ جذبات میں بڑا بول نہیں بولنا چاہتی کہ یہاں تکبر والوں کے سر نیچے ہوتے دکھائے ہمیں رب نے۔
آج دل میں خوف بھی ہے تھوڑا۔۔ توقعات کا،خوف ہوتا ہے نا وہی ہے۔
لوگ کہتے ہیں میں آپ پر تنقید برداشت نہیں کرسکتی۔ کیا کروں خانصاحب خود سے کہیں زیادہ یقین ہے آپ پر اور میرے لیے میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے لیے یہ گالی نہیں، آپ سے محبت ہماری سچائی سے اعلی آدرشوں والے نظریات سے محبت ہے۔
فیض کے الفاظ میں یوں کہ
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں یہ اکرام ہی تو ہے
اگلا شعر نہیں لکھوں گی کہ ڈھل چکی شب غم اور شب غم و ہجر کتنی ہی طویل ہو ڈھول جاتی ہے۔ آپ سے سیکھا یہ۔ نکموں کو یہ سیکھانے کا شکریہ۔
یہ قبولیت کی گھڑیاں ہیں رب زمین پر اپنے بندوں کا،حج قربانی اخلاص دیکھ رہا ہوگا وہاں ہی وہ ہمارے بھیگے لہجے نم آنکھیں موم د ل بھی دیکھ رہا ہوگا۔ اس کا شکر ادا کر پانا ممکن ہی نہیں۔ اس سے صرف کرم کی مہربانی کی توفیق ہمت کی دعا کی جاسکتی ہے۔ اس سے مدد و نصرت چاہی جاسکتی ہے۔ اور بے شک وہ اپنے بندے کی سعی و دعا ضایع نہیں کرتا۔ رب ہمارا بھی مددگار ہوجائے۔ رب آپ کو آپکی ٹیم کو سرخرو کرئے آمین۔ ہم سر اٹھا کر جی سکیں۔ میرے بچے بہتر ملک میں جی سکیں۔
اور آپ کے خطاب پر صرف یہ کہا جاسکتا ہے

بھلا یہ فن بھی کہاں ہر کسی کو آتا ہے
وہ گفتگو نہیں کرتا، دیے جلاتا ہے

No comments:

Post a Comment