Pages

Monday 4 June 2018

آپ جنت کے حقدار بن جائیں لائبریری وہ بنا دے گا




سکیچ بک والی شہرزاد جیسی ہی ایک دوست ہے۔ بہت پیاری میری۔ سحرو افطار کی دعاؤں میں شامل۔ سوشل میڈیا پر بہت سے اچھے لوگوں میں سے ایک۔ اس سے تعلق آج تک سمجھ نہیں آیا۔ ہم زندگی میں کبھی ملے نہیں، شائد آئندہ بھی کبھی مل نہ پائیں۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی خوشیوں، کوششوں، دوستوں، دشمنوں سے واقف ہیں۔ ایک دوسرے کے مزاج آشنا ہیں اور درد آشنا بھی۔ مجھے اس پر غصہ بھی آجاتا ہے جب وہ اوروں کے لیے اپنی زندگی تیاگ دیتی ہے۔ اور جب وہ اوروں سے توقع رکھتی ہے کہ اس کے مسائل حل کریں۔چاہے وہ اور قریبی ہی کیوں نہ ہوں۔ کبھی ڈانٹ دینے کو، غصے میں بول دینے کا بھی جی چاہتا ہے۔ لیکن دل اس سے ناراض ہونے پر مائل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے دل کے کسی گوشے میں محبت موجود ہے۔ ایسی محبت جو کسی غرض سے، جزا اور صلے سے اوپر اٹھ کر، کی جاتی ہے۔

ایسی ہی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے ایک گوشے پر جب اداس ہوتی ہے تو مجھے یاد کرلیتی ہے۔ میں چپ چاپ سن لیتی ہوں۔ حیرت ہے نا! مجھ سی فسادی طبیعت بھی اسے کوئی الٹا سیدھا مشورہ نہیں دیتی۔ ایسی ہی ہے وہ معصوم سادہ دل۔
ایک دن جب کسی کے آزار، خالق سے شکوے لے بیٹھی تو ناراض ہوگئی  تو کہنے لگی جنت میں بھی اسی ساتھ کو بھگتنا ہوگا کیا۔
پوچھا کس نے کہہ دیا۔
جواب گلیشئر سے سرد لہجے میں کہا اسی زمینی خدا نے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مذہب پر زور آور کی اجارہ داری ہے۔ اور المیہ یہ کہ اس معاشرے میں زور آور جنس مخالف۔ لہذا مذہب کی مردانہ تشریحات ہی رائج ہیں۔ انہی کو پذیرائی حاصل ہے۔
اس سے پیشتر کہ بلاسفمی کا ٹھپہ لگوا بیٹھوں۔ بہتر ہے خاموش رہوں۔

خیر۔ دوست سے کہا جنت تو چاہتوں کے پورے ہونے کا نام ہے۔
ہر کسی کی ہر خواہش۔
جیسے میری خواہش ہے رب مجھے جنت میں دور جھیل کے کنارے ایک چھوٹا سا ٹری ہاؤس دے دے۔
جس کی کھڑکیوں پر جگنو روشنی کرتے ہوں اور گلاب خوشبو پھیلاتے ہوں۔
میں جب ٹری ہاؤس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر سامنے دیکھا کروں تو بہت سے ستارے سامنے والی جھیل سے پانی پینے آتے ہوں۔
وہ جس جھیل پر سایہ فگن دھنک سے لٹکتا میرا جھولا ہو۔ جس پر بیٹھ کر جب ہوا کے سنگ اڑوں تو پیروں سے جھیل کے چھینٹیں اڑاتی جاؤں۔
صبح تتلیاں میرے ٹیرس پر اپنے پروں کے رنگ جھاڑ جایا کریں۔ دوپہروں میں مور اپنے پنکھ پھیلائے سورج کو ڈھانپ لیا کریں۔ سپہر ڈھلتے ہی سارے پرندے میری منڈھیر پر بیٹھے دن بھر کے قصے سنائیں۔ گلہریاں آتے جاتے میرے کافی ٹرے سے نٹس اٹھایا کریں۔ میں کافی میکر میں کافی ڈال کر کوئل کی مدھر کوک سنوں۔
شام ہوتے ہی کافی کا کپ پکڑے ٹرانسپرنٹ فرش والے ٹیرس پر جوتوں سے بے نیاز آجاوں۔ فرش کے نیچے ایکوریم سا سماں ہو۔ بہت سی گولڈ فش شیشے سے فرش کو کھٹکھٹا کر ہنس پڑیں۔
نیچے درخت کی کھوہ میں گلہریوں کے جوڑے کا گھر ہو۔ جو نٹس چھپاتے، بھاگتے، دوڑتے میرے گھر کی روٹین کا حصہ ہوں۔
میرا جب اکیلے کافی پینے کا جی نہ چاہے تو ہاتھ بڑھا کر بادل کے قالین پر بیٹھ کر کسی دوست کے گھر چلی جاؤں۔
یا پھر اپنے جنت والے ٹی ہاؤس میں، ایک کونے میں بیٹھ کر اقبال و فیض کا کلام سنوں۔
جناح کے دلائل سنوں آزاد کو سوال پوچھتے جوابدہ ہوتے دیکھوں۔ اور اس ٹی ہاوس کی آٹو لائبریری کو کہوں مجھے کسی قدیم زمانے کی کوئی لوک داستان سنائے۔
اپنے اس دوست کے ساتھ جھیل کے ساتھ ساتھ لمبی واک کروں۔ ہاتھ سینے پہ باندھے خاموشی سے جھیل کنارے درخت کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہوں۔ کوئی نظم گنگناؤں۔
ملنے کی درخواست منظور ہوجائے تو رب کے حبیب (صلی علیہ وسلم) سے ملوں۔ کچھ نہ کہوں بس خاموشی کی زباں میں بہت سی باتیں کروں۔
ملنے کا وقت پورا ہوجائے تو پھر ملنے کی درخواست کے ساتھ رخصت ہو جاؤں۔
اسی محفل میں عمر فاروق رضی اللہ سے کہوں۔ آپ نہیں تھے تو ہم نے چار چار سال کے دریدہ بدن بے گورو کفن دفنائے تھے۔ آپ ہوتے تو زندگی ہم سے اس لہجے میں بات کیوں کرتی۔
صدیق اکبر رضی اللہ سے کہوں۔ دور ابتلا سے آئی ہوں۔ روز اک فتنہ پروان چڑھتا تھا۔ اور کوئی محمد (صلی علیہ وسلم) کے رب کی قسم کھا کہ فتنوں کی سرکوبی کو لشکر نہیں بھیجتا تھا۔
عثمان غنی سے ملوں اور کہوں آپ کا نام میرے نام کا حصہ ہے۔ ان سے کہوں آپ کے بعد امت نے ایک ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ نہ ایک ساتھ جہاد کیا۔ نہ روزہ رکھا۔ ان سے کہوں آپ کے بعد کوئی جان دے کر مدینہ کی حفاظت کرنے والا نہ رہا۔ ان سے کہوں مجھے جنت والے بییر روما کے پاس بیٹھنے دیں کچھ دیر۔ میں دل سے کینہ نکالنا چاہتی ہوں۔
شیر خدا حیدر کرار کے محل کے سامنے سے گزروں۔ ان سے معافی طلب کروں۔ ہم نے آپ کی اولاد کو پیاسا مار دیا۔ زینب کی دریدہ چادر کے لیے حیدر کرار سے معافی مانگوں۔ ان سے کہوں آپ ہوتے تو حسنین کو، ٹیڑھی آنکھ سے کون دیکھتا۔ اور حسنین ہوتے تو امت کی زینبوں کی چادریں کھینچنے کی جرات کون رزیل کرتا۔ ان سے کہوں غیرت اور بہادری دے دیں۔ میں نے ایسے دور میں عمر کاٹی ہے جہاں غیرت کے معیار الٹ تھے۔ جہاں بہادری کمزور کے استحصال کا نام تھا۔
زینب رضی اللہ سے ملوں ان سے کہوں ایک زینب کھوئی تھی میں اس دن تمام شب آپکی چادر کے چھید پر روتی رہی تھی۔ ان سے کہوں آپ کے پہاڑ جتنے دکھ کا زرہ مجھ پر بھی بیتا تو تڑپ معلوم ہوئی تھی، آپ کا درد جانا تھا۔ میں ایسے دور سے آئی ہوں۔ جہاں ہر روز زینب کی چادر کھینچی جاتی تھی۔ مجھے کچھ دیر اپنے محل میں سستانے دیں۔ یہ داغ دل بھرنے تک یہیں رہنے دیں۔

وہاں سے رخصت لے کر واپس اپنی جنت، اپنے اس خاموش گھر میں چلی آؤں۔ جہاں ہر اس شخص کی آمد ممکن ہوگی جس سے چاہت کا، الفت کا رشتہ ہے۔

سات سالہ عدن دعا کرتی ہے اللہ جنت میں ایک گھر دے، الگ الگ نہ دے کہ کہیں ہم دور نہ ہوجائیں۔
ایسی ہی دعا میری ہے۔۔ اللہ بس جنت کا ایک خاموش ٹکرا دے دے۔
چاہتوں کو پورا کرنے کا وعدہ تو اس کا پہلے سے ہے۔

آپ کو لعنت ملامت نہیں کرنی۔ نہ نصیحت___ بس یہ کہنا ہے آپ جنت کے حقدار بن جائیں لائبریری وہ بنا دے گا۔۔ کہ جنت چاہتوں کی تکمیل کا نام ہے۔

No comments:

Post a Comment