Pages

Monday 4 June 2018

حریت کا نشاں



گلابی سکارف میں لپٹی
حرف تازہ کی مانند 
خوشگوار تاثر لئے
اے نہتی مسیحا سن۔ 
تیرے ہونٹوں کی مسکراہٹ سے کہیں اوپر
تیری آنکھوں کی حریت پسندی معتبر ہے۔
تیرے چہرے پہ پھیلی معصومیت سے۔
تیرے اندر کی بغاوت کہیں پر اثر ہے۔
سن اے حریت پسند 
ممکن ہے تاریخ تجھے 
ہسپانوی حسیناؤں سے ملاتی رہے
وہ جو رخ پر نقاب اوڑھے 
تنگ گلیوں سے گزرتی ہوئی
کئی تہذیبوں کے جلترنگ بجاتی رہیں۔
وہ جن کے خال و خد میں الجھ کر
کئی عامی پکاسو ڈوانچی بنے۔
ممکن ہے تاریخ تمہیں یونانی دیوی بناتی رہے۔
جن کے ہونے نہ ہونے سے
وقت کی رفتار ماپی گئی
وہ جن کے وجود سے 
روشنی کی مقدار ماپی گئی۔
ممکن ہے تم تاریخ کے صفحے پر 
حریت کا نشاں بن کر اپنی قوم
کے ماتھے کا جھومر بنو۔
کسی فوجی کی ودری کے پھولوں کی طرح۔
مہکتی رہو چمکتی رہو۔
یہ بھی ممکن ہے۔
غلاموں کی تاریخ تبرا کرے
تجھ کو بے وقوف 
سر پھرا کہے۔
یہ بھی ممکن ہے مورخ
ڈر کی چادر میں لپٹا ہوا
خوف کی ردا اوڑھے ہوئے
مرعوب ذہن و قلم سے
تیرے کردار کو بونا کرے۔
تجھے مقام بلند دے نہ سکے۔
مگر!
سن اے پیاری مسیحا
تو حسیناؤں کے جھرمٹ میں
حسن و خوبی سے ترشی ہوئی
حریت کی دیوی سی
مغرور ناک اٹھائے کھڑی ہے۔
تیری قامت کو مورخ نہ لکھ پائے گا۔
کہ غلاموں کی تاریخ 
حکمرانوں کے اللے تللے
شاہ کے وفاداروں کے 
لکھے قصیدیں ہوں تو ہوں
آزادی کی حریت کی داستاں ہو نہیں سکتے۔
سن اے نہتی مسیحا
تو مرتی ہوئی امت کی سوئی ہوئی غیرت 
پر طمانچہ ہے
تو مردہ ضمیروں کے معدوم ہوتے کتبوں 
پر لکھی صدا بے نوا ہے۔
تو کھوئی ہوئی حمیت ہے
سن!اے نہتی مسیحا
تو دہشت ہے
بے ضمیروں کے لیے
دیں فروشوں کے لیے
غلام ذہنوں کے لیے
خود غرضی میں لپٹے
زندہ لاشوں کے لیے۔

No comments:

Post a Comment