Pages

Monday 4 June 2018

کہانی یہ ہے



کہانی یہ ہے کہ بہت سے دنوں سے کچھ لکھا نہیں جا رہا تھا۔ چلتے پھرتے، کام کرتے، لفظ ذہن و دل میں غدر مچائے رکھتے۔ لکھنے بیٹھتی تو
 جملے ترتیب نہ پاتے۔ میری خامہ فرسائیاں چھاپنے والے پوچھتے کہ لکھتی کیوں نہیں۔ ہمیشہ کی طرح جواب ہوتا، لکھ رہی ہوں۔بھلے لوگ ہیں میرے بہانے سن کر یقین کرلیتے ہیں ہر بار۔

کئی بار کہا، لکھا نہیں جاتا کیا کروں۔

تین  مختلف تحریریں شروع کیں۔کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا ۔ تھک کر اسی سے کہا۔

ربا تو میرا محرم راز ہے۔ تجھے معلوم ہے اندر شور مچاتے یہ لفظ لکھ نہ پائی تو وحشت مار دے گی۔

ربا کوئی راستہ نکال ، بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔ اور تجھے پتا ہے تیرے بندوں کے مسائل کا حل تیرے سوا کسی کے پاس نہیں۔ چاہے مسئلہ ذاتی ہو یا مذہبی۔ چاہے درزی میرا سوٹ سینے سے انکاری ہوجائے، چاہے کسی گنجلک بات کو ذہن تسلیم کرنے سے انکار کردے۔

چاہے میری شہرزادوں سی دوست اجارہ داروں کی بستی میں گھٹن کا شکار ہوجائیں۔ چاہے اجارہ دار کا تیرے نام پر کیا گیا استحصال ہو۔ تجھے معلوم ہے یہ سارے مسئلے تونے ہی حل کرنا ہوتے ہیں۔ تو میرا یہ مسئلہ بھی۔حل کردے ربا

اندر کرلاتے لفظوں کا اذن رہائی دے ربا۔

کیسا مہربان ہے۔ وہ دعائیں سننے والا ہمیشہ کی طرح یہ دعا بھی۔سن لی اس نے۔

لکھنے کا نہ ارادہ تھا، نہ وقت، نہ جگہ، نہ موضوع۔

کوشش کرتی ہوں کہ سوشل میڈیائی مزہبی مباحث میں فریق نہ بنوں کہ اپنی جہالت میں کہیں کسی مذہبی معاملے پر غلطی میں کچھ ایسا غلط نہ کہہ بیٹھوں۔

خیر واک کرتے ہوئے اچانک بینچ پر بیٹھ گئی۔ موبائل ہاتھ میں پکڑا اور لکھ دیا۔ دوست سے ہوا مکالمہ یاد آیا لکھ دیا۔ یہ میرا اس کے لیے خراج تحسین ہے، جو سماج کے منہ پر تھپڑ جیسے رویوں میں بھی جینے کا ڈھنگ نکال رہی ہے۔ جو اپنے راستے کے کنکر خود چننا سیکھ چکی ہے۔

یاد آیا اسے اس گفتگو میں کہا تھا میں لکھوں گی مجھے جنت میں کیا چاہیے۔

لکھ دیا۔ یقین کریں ایسی ہی چاہیے۔ کچھ اضافے کے ساتھ۔ اور یقین کریں میرا ایمان ہے وہ مجھے ایسی ہی دے گا۔ رتی ماشہ کم نہ رتی ماشہ زیادہ۔

اور آخری حصہ لکھتے ہوئے ہچکی بندھ گئی۔

اگر مجھے کسی عہد میں زندگی گزارنے کا آپشن دیا جائے تو رب کے حبیب صلی علیہ وسلم کے دور کو چن لوں۔ پر مجھے لگتا ہے میری اوقات نہیں یہ۔ تو عمر فاروق رضی اللہ کے دور کا انتخاب کرلوں۔

فرات کے کنارے جھونپڑی میں رہتی رہوں اس گڈریے کے تیقن کا چھوٹا سا حصہ لئے ہوئے، جو کہتا تھا فاروق زندہ تھا تو بھیڑییے میری بھیڑوں کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتے تھے۔ جو دیوانہ وار اعلان کرتا تھا۔ لوگو!!!فاروق نہ رہا۔

آج جب انصاف کا خون ہوتے دیکھتی ہوں تو بے ساختہ کہہ اٹھتی ہوں لوگو ہم میں کوئی فاروق نہ رہا۔

جب جرم ضیفی کی سزا پاتے، اپنے دو دو سال کے شیر خوار نو نہالوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے حیدر کرار کی ہی یاد آتی ہے۔ جب قوموں سے حیدر کرار اٹھ جاتے ہیں تو نہتے لوگ یونہی کٹتے مرگ مفاجات پاتے ہیں۔

تحریر لکھی دانش والوں کو بھیج دی۔

انہوں نے چھاپ دی۔

اور میرے سارے دوستوں نے، آپ سب احباب نے، کچھ ہی گھنٹوں میں عزتوں محبتوں کے ڈھیر لگا دیے۔

میرے لیے آپ سب کا شکریہ ادا کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اسلئے یہ سطریں گھسیٹ رہی ہوں کہ اس پذیرائی کا شکریہ دوستو۔

یہ رب کی جنت کا اعجاز ہے کہ ہم گداز دلوں کے ساتھ اس کے سامنے پیش ہیں۔

اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی برکت ہے یہ۔

میں ایسا کیا لکھوں کہ ان محبتوں کا حق ادا ہو؟

میری کیا اوقات کہ حق ادا کر سکوں۔

بس یہ کہہ سکتی ہوں کہہ دیتی ہوں کہ شکریہ دوستو۔

آپ سب کی محبتوں کی مقروض رہوں گی۔

اللہ مجھے آپ سب کے گمان جتنی نیک باطن بنا دے آمین۔




No comments:

Post a Comment