Pages

Tuesday 19 December 2017

لیکن یہ میری رائے ہے




یقینا آپ سب ہی رائزڈ آئی برو کے ساتھ پڑھیں گے اسے لیکن چونکہ ملکیت والی بات میں نے کہی تھی اور حق اختیار کے بے جا تصور پر کامنٹ بھی میں نے کیا تھا جس پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں سو مجھے لگتا ہے یہ میرا فرض ہے ان سوالوں یا اعتراضات کے وہ جواب مہیا کروں جو سوال اٹھاتے ہوئے بیک اینڈ میرے دماغ میں تھے۔
ظاہر سی بات ہے انسانی دماغ غلطی کرتا ہے کر سکتا ہے لہذا ان جوابات میں بھی غلطی کا امکان ہے۔ 
لیکن یہ میری رائے ہے۔
پہلا جواب کہ اولاد تو کیا کسی بھی معاشرے میں کوئی بھی رشتہ کسی دوسرے کی ملکیت نہیں ہوتا۔
والدین کی بات پال پوس کر جوان کرنے والی تو۔ بات تو سخت ہے لیکن اولاد کا فیصلہ بھی تو انہی کا ہوتا ہے تو یہ ان ہی کی ڈیوٹی ہے تب تک اولاد کے فنانشل میٹرز کو سپورٹ کرے جب تک وہ خود اس قابل نہیں ہوجاتے۔ اگر تو اللہ کے احکامات پر چلنا ہے تو پھر تو آپ انہیں لیگیسی سے بھی محروم نہیں کر سکتے کسی بھی صورت چاہے وہ آپ کی پسند کےمطابق پھپھو کی بیٹی بیٹے سے شادی کرے یا نہیں۔ یہ رب کا حکم ہے دو ٹوک اور واضح۔۔تم میں سے کوئی کسی حقدار کو اس کے حق سے محروم نہ کرے۔
اور اگر مروج یا یوں کہہ لیں جنہیں ہم مہذب سمجھتے یا کہتے ہیں ان کی سوشل نارمز کو فالو کرنا ہے تو آپ اٹھارہ سال تک ہر اس بچے کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے پابند ہیں وہ جس کو دنیا میں لانے کا سبب آپ بنے۔۔۔
دوسرا اعتراض تھا کہ بچیاں اپنا اچھا برا نہیں سمجھتی۔
پہلی بات کوئی بھی۔بنداویری ینگ ایج لڑکا ہو یا لڑکی اٹھارہ انیس سال کی عمر میں یا ارلی ٹوئنٹیز میں اتنا میچور نہیں ہوتا کہ چیزوں کو تجربے سے پرکھ سکے۔ یا پھر معاشرتی روییوں کو سمجھ سکے۔ تو ان سے اسوقت میچور اپروچ کی توقع عبث ہے۔ اور یہ میچور پروف زندگی برتنے سے ہی آتی ہے۔ 
تجربے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن اس وقت اگر کوئی بچہ اپنی پسند کا اظہار کرتا ہے کسی بھی معاملے میں تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آپ کے تجربے کو عقل سمجھ شعور کو چیلنج کرہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے آپ کا بچہ اپنی رائے رکھتا ہےوہ شعور کی اس منزل کی طرف گامزن ہوگیا ہے جہاں فیصلے لینے کا حق اختیار استمال کرنے کے قابل ہوتا ہے انسان۔ البتہ ساری عمر اپنے پلو سے باندھ کر رکھنا ہے بچوں کو تو آپ لوگوں کی چوائس۔
اب آجاتے ہیں شادی کی طرف جس پر یہ ساری بحث چل رہی ہے۔
شادی ہو یا زندگی کا کوئی بھی معاملہ کوئی بھی انسان کوئی بھی دوسرے پر اپنی رائے تھوپ نہیں سکتا۔ نہ تھوپنا چاہیے۔ بہتر آپشن پر بات کی جا سکتی ہے۔
اور رہ گئی لڑکی کی ولایت کی بات تو مجھے حوالہ یاد نہیں آرہا۔۔
لیکن یہ حدیث ہے بعد میں۔فقہ میں بھی اسے اصول مانا گیا کہ اگر لڑکی کا ولی اس کی مرضی یا پسند کے بغیر اس کا نکاح کسی سے کر رہا ہے تو اس کی ولایت ساقط ہوجائے گی۔ اور سارے محرم رشتوں سے یہ ولایت ساقط ہوتے ہوتے قاضی اور پھر سٹیٹ کو ولایت منتقل ہوجائے گی۔
خاتون کی مرضی اس قدر اہم ہے شادی کے معاملے میں۔
اور ہم سکون سے کہہ دیتے ہیں اس کو زمانے کا کیا پتا۔ ماں لیا بچیوں کو زمانے کا نہیں پتا ہوتا۔ یہ بھی مان لیا آپ کے بچے کی چوائس اچھی چوائس نہیں یا اس کا فیصلہ مستقبل میں غلط ہو سکتا ہے۔ اس وقت ہم کیا کرتے ہی؟ ہم اپنے بچے کی بات طوعا کرہا مان بھی لیں تو اسے صاف جتا دیتے ہیں اب زندگی میں کوئی بھی مشکل آئے تو ہمارے پاس مت آنا۔ اپنے فیصلے کے تم خود ذمہ دار ہو۔اور کون ہے جس کی زندگی میں مشکلات نہیں آتیں؟ 
خیر لیکن یہ ہی صورتحال جب کبھی ارینج میریج کے بعد پیش آجائیں تو تب ان دو افراد کی زندگی خراب ہونے کی ذمہ داری کون لیتا ہے ؟
کوئی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو مائیں بھی کہہ دیتی ہیں اسے شوہر مٹھی میں نہیں کرنا آیا۔
یعنی اگلے فریق کو مٹی کا مادھو بنا کہ رکھنا ہی ازدواجی زندگی کی کامیابی ہے ؟
نکاح دل کی خوشی کا نام ہے جیسے دل کو چھونے والے الفاظ ہم نے صرف چوم چاٹ کے طاق میں ہی رکھنا ہوتے ہیں۔
اور بات چل ہی نکلی ہے تو بتا دوں جب آپ کا بچہ کسی کو پسند کرتا ہے تو وہ اپنی مرضی کے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے کی بات کرتا ہے نہ کہ پسند کی بیوی یا شوہر کو پیش کرتا ہے آپ کے سامنے۔ 
آخری بات والدین کے کسی حق سے انکار نہیں ان کی محبت پر شک کی گنجائش نہیں۔ ان کے فیصلوں پر اعتراض ہو سکتا ہے تب بھی بدتمیزی کی گنجائش نہیں۔
لیکن پورے احترام کے ساتھ پھر بھی یہ ہی رائے ہے والدین یا کوئی بھی رشتہ دوسرے کی زندگی کا مالک نہیں۔
آخری بات اگر میں غلط ہوں تو کوئی مجھے صحیح الفاظ بتا دے۔
ایک حدیث کے الفاظ ہیں فتنہ پھیلانے والی چیزوں میں ایک بغیر پسند یامرضی کے نکاح کرنا ہے۔
زور زبردستی سے کوئی نکاح نہیں ہوتا یہ دل کی مرضی ہے۔
باقی آپ لوگوں کی پسند ہے ملک کو اتاترک کا ترکی بنانا ہے یا سوشل نارمز پر بچے قربان نہیں کرنے۔

ایک الارمنگ بات بتا دوں پاکستان میں ایکسٹرا میریٹل افیئرز کی ریشو خطے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
وجوہات سوچ کر جییں۔

No comments:

Post a Comment