Pages

Thursday 10 August 2017

بھیڑیوں کا انصاف



آج تو ابا کو گھر آ لینے دو، اماں کی ضرور شکائیت لگاؤں گی۔ پتا نہیں کیوں مجھے باہر کھیلنے سے منع کرتی ہے۔ ساری ہی تو میری سہیلیاں کھیلتی ہیں- اور پھر کہتی ہے چھٹیوں کے بعد تمہیں سکول بھیجوں گی پانچ سال کی ہوگئی ہو تم- اب بڑی ہوگئی ہو
 پانچ سالہ عورت نے سر جھٹکا اور گلی کی نکڑ پر سہیلی کے گھر کی طرف چل دی۔ ساری گلی میں اتنی خاموشی تھی جیسے قبرستان میں ہوتی ہے-قبر کا خیال آتے ہی خوف زدہ ہو کر نظر چاروں طرف دوڑائی۔ گلی میں کسی کو نہ پا کر گھر کی طرف دوڑ لگا دی
لیکن گھر دور تھا- بہت دور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور درمیان میں کئی بھڑییے بیٹھے تھے۔ گھات لگائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کے سترہویں سال میں لگ چکی تھی- اب تو اکثر آتے جاتے کمرے سے باہر برآمدے کی دیوار پر ٹنگے ہوئے چھوٹے گول آئینہ میں اپنا عکس دیکھ کر چوری سے مسکرا بھی دیتی تھی- اور پھر اپنی ہی مسکراہٹ سے خوف زدہ ہو کر پکا سا منہ بنا کرخود کو کاموں میں مصروف کر لیتی۔  مگر کمبخت عمر کا یہ حصہ ہی ایسا تھا مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپتی تھی- ہونٹوں پر پہرے بٹھاتی تو آنکھ مسکرانے لگتیں- آنکھ کو روکتی تو کلائیاں کھلکھلا اٹھتیں اور محلے کی دوکان سے لی چوڑیاں اس کھلکھلاہٹ کا راز فاش کر دیتیں اور تین کمروں کے اس گھر میں کسی کونے سے اماں کی   غصے سے بھری آواز آتی- خدا جانے یہ سارے جسم نے مسکرانے کا فن کہاں سے سیکھا تھا -اور یہ بھی اتفاق تھا یا کچھ اور جب  اس نے مسکرانا سیکھا تھا اس کی اماں نے دہلنا شروع کر دیا تھا
اماں گاہے بگاہے بھائی کا ڈراوہ بھی دیتی تھی۔ یہ بھی معمہ تھا کہ وہ تین سال بڑے بیس سالہ کڑیل بھائی کی جوانی سے ڈرتی تھی یا میرے ہنسنے سے۔ ان دونوں میں سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور تھا۔
جبھی تو اماں بھائی کی موجودگی میں مجھے منظر سے ہٹائے رکھتی تھی-میری سہیلیوں کی مائیں بھی ایسے ہی کرتی ہوں گی
اماں کہتی ہیں بیٹیوں کے نصیب ایک سے ہوتے ہیں
ابا بھی کہتا ہے دھی رانی ہوتی ہے۔ بس اس کے نصیب ڈراتے ہیں- پتا نہیں یہ کونسے نصیب ہوتے ہیں
ابا تو یہ بھی کہتا ہے بیٹی کسی کو بری نہیں لگتی یہ معاشرہ جینے نہیں دیتا
کسی دن پوچھوں گی ابا سے یہ معاشرہ کیا ہوتا ہے کون بناتا ہے اسے اور یہ کیوں جینے نہیں دیتا
ابا سے یہ بھی کہوں گی میری سہیلی دسویں کے پرچے دے گی اس بار، پھر ابا سے کہہ کے اگلی بار میں بھی دوں گی
اور آنے والی عید پر چوڑیوں اور مہندی کے ساتھ کاجل بھی لوں گی- میری سہیلیاں کہتی ہیں، میری آنکھیں کالی ہیں کالی آنکھوں میں کاجل بڑا پیارا لگتا ہے
صبح سے ہی اماں چارپائی سنبھالے پڑی ہے- ویسے تو اکثر بیمار رہتی اماں- پر آج تو صبح سے عجیب بے چینی ہے اسے بار بار شربت پانی پی رہی ہے- کہتی ہے دل گھبرا رہا ہے میرا
ابا سے کہہ کے اماں کو بڑے اسپتال لے جاؤں گی- ڈاکٹرنی سے چیک کروانے
آج گرمی بھی تو بہت ہے۔ سورج جیسے ہمارے ہی آنگن میں اتر آیا ہو۔ اماں تین بار دروازے سے ہو آئی ہے، بھائی کو دیکھنے- خدا جانے اتنی دوپہر میں کہاں گیا ہوگا
اماں کی چارپائی کے کونے پہ ٹکی وہ نہ جانے کیا کیا سوچ چکی تھی- اور جانے کتنی دیر ایسے ہی بیٹھی رہتی جو دروازہ دھڑ دھڑانے سے ڈر نہ جاتی- خوف زدہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا جو دل پہ ہاتھ رکھے دروازے کو دیکھ رہی تھی- ہمت جمع کر کے دروازہ کھولا تو بھائی__بھائی کی آنکھوں میں بسی حیوانیت۔ دروازے کو دھکا دیتے ہوئے اندر آیا
نلکے پہ جا کہ منہ پر پانی کے چھینٹے مار کمرے میں جا گھسا
وہ سہم کے اماں کے ساتھ جا لگی
جانے کتنے پل وہ بھائی کی آنکھ میں بسی حیوانیت کو سمجھنے  یا نہ سمجھنے کے درمیان معلق رہی۔ جب اماں نے اسے ایک جھٹکے سے پیچھے کیا اور اندر کمرے میں چلی گئیاور جب باہر آئی تو شکستہ قدم چلتی چارپائی پہ ڈھے گئی۔سہ پہر ڈھلے کچھ لوگ ابا کو بلانے آئے۔ اماں کے جواب پر ڈیرے پہ چلے گئے
سورج اپنے تمام تر غرور اور انا کے ساتھ مغرب میں ڈھلنے لگا تو سارے دن کی بے چینی پلکوں پہ آ ٹہری
پنچائیت کے آدمی بھائی کو بلانے آئے- اماں دھاڑیں مار کے رونے لگی
میں نے آٹا گوندھتے، کئی نمکین آنسو پونچھے- بھائی کا جرم نہیں پتا تھا مجھے
لیکن خود کو سزا کے لیے ضرور تیار کر چکی تھی
اس بستی کی ریت ہے ۔ بیٹوں کی کڑیل جوانیاں بچانے کے لیے بیٹیوں کے جوبن سولی چڑھائے جاتے ہیں
اب گلی میں ہونے والی ہر آہٹ پر دل بلیوں اچھلنے لگتا- جانے کب کون موت کا پروانہ تھامے آ نکلے
دل کے کسی کونے میں موہوم امید بھی تھی کہ  ابا مجھے سزا نہیں ہونے دے گا
اماں میری بلی نہیں چڑھنے دے گی۔رات سے پہلے جھکے کندھے لیے ابا گھر میں داخل ہوا-بھائی اس کے پیچھے تھا نہ آنکھوں میں حیوانیت نہ چہرے پر شرمندگی نہ جھکا سر
پانی کا گلاس  ابا کی طرف بڑھایا تو کپکپا تے ہاتھ سر پہ رکھ کے کمرے میں چل دیئے۔ اماں نے چیل کی طرح جھپٹ کے ابا کا دامن پکڑا اور ابا کی آنکھ میں چھپی تقدیر پڑھ کے سینے پہ دو ہتڑ مار کے بین ڈالنے لگی
تین تھے، نہیں شائد چار یا پھر پانچ- حیوان تھے جو لینے آئے۔ایک بھیڑییے نے پانچ سالہ عورت کو نوچ ڈالا تھا
منصفوں نے فیصلہ سنایا بھیڑییے کے گھر کی بھیڑ کو نوچا جائے
ابا کا جھکا سر، اماں کے بین، کچھ کام نہ آیا انصاف کا سر بلند ہوا
اذیت کی وحشت کی جانے کتنی صدیاں تھیں جو بدن اور روح چیرتی رہیں
جانے درد کے کتنے زمانے تھے جو گزرے تو وقت ٹہر گیا
جیسے چلتے چلتے زمیں رکی ہو- میں جو ابا سے معاشرے کے مطلب پوچھنے والی تھی اب اسی کے رحم و کرم پہ اس اندھیرے کمرے میں پڑی درد کے بے انت سمندر میں بے حس وحرکت پڑی تھی
ظالم، مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا میری بستی میں انصاف کا بول بالا ہوا- منصفوں کے شملے اونچے ہوئے اور میری جنس کی تذلیل کا نیا باب رقم ہوا
ایک لڑکی سورج کے ڈوبنے سے چاند کے نکلنے تک کے درمیانی عرصہ میں زندگی کے سارے فلسفے سمجھ گئی
اماں کے ہر وقت کے کوسنے کا مفہوم اب کھلا مجھ پر
اپنے کندھوں پہ اپنی لاش لادے خود ہی چلتی گھر، نہیں اجنبیوں کے مکان تک آئی تھی یا کوئی چھوڑ گیا تھا، نہیں معلوم-احساس کی شدت احساس مار دیتی ہوگی- درد کی کسی بلند فصیل کو پیدل طے کیا تھا ۔ اب دکھ کی کسی کیفیت کا شائبہ نہ رہا تھا- میں اپنی بستی کے منصفوں سی ہوگئی__ بے حس
کاش میری جنس بھی صافہ باندھا کرتی تو میں صافہ گلے میں ڈالے منصفوں سے سراپا التجا ہوجاتی۔کیونکہ یہاں  ریت ہے  کہ جب کوئی صافہ گلے میں لٹکائے چلا آئے تو اس کے کردہ نا کردہ قصور معاف کر دییے جاتے ہیں
افسوس کہ نوچی جانے والی دونوں عورتیں صافہ نہ لیتی تھیں
سنا ہے ایسے منصفوں کی بستیاں جلد الٹا دی جاتی ہیں- سنا ہے ایک منصف اور بھی ہے- جو عادل ہے منصف ہے-میں اس کی عدالت میں مقدمہ نہیں لے جاؤں گی- سنا ہے آہ پر سوؤموٹو لیتا ہے وہ- حاکموں کا حاکم سب سے بڑا منصف
سحرش عثمان

No comments:

Post a Comment