Pages

Thursday 10 August 2017

سوشل میڈیا اور حقیقی زندگی


مارک زخر برگ نے ہماری زندگیاں کتنی مشکل کر دی ہیں ۔عجیب سی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ رات دن اپنی آنکھیں، اپنے ہی ہاتھوں کی لکیروں میں کچھ تراشتی رہتی ہیں۔
جیسے قسمت کے ٹوٹے کسی تارے کی روشن لکیر کی تلاش ہوں یہاں۔
سامنے صوفے پہ لیٹی بہن کے احوال پوچھنے کی فرصت نہیں اور کیلی فورنیا بیٹھی سہیلی کی نند کے بچے کے لیے دعائے صحت فرمائی جا رہی ہوتی ہے۔ آپ سب ایسی ہی گفتگو کی توقع کر رہے ہوں گے؟ لیکن ٹہرییے! ایسے بھی نادان نہیں ہم

اجی ہم کوئی سیاست دان تھوڑی ہیں کہ جس تھالی میں کھائیں اسی میں چھید کریں- نہ ہم جرنیلوں کی طرح کسی عہدے پر فائز ہیں  جو کام اپنے لیے اچھا سمجھیں دوسروں پر اسی کی وجہ سے تنقید کریں- نہ ہم ڈاکٹر جو ایمرجنسی بائیکاٹ کر کے بیٹھے رہیں- انجینئر بھی نہیں جو ٹائم ویسٹ کرنے والے اور دوسرے سوشل میڈیا یوزرز کو الگ الگ کر سکیں۔
رکیے نا! جو آپ سمجھ رہے ہیں ہم وہ بھی نہیں- ایک تو 
ہم لوگججمنٹل بڑی جلدی ہوجاتے ہیں - ارے بھئی نہیں ہم موٹیویشنل سپیکر بھی نہیں ہیں
ہم تو سیدھی سادھی معصوم کم گو (اہم اہم) سی گھریلو لڑکی ہیں
اور کسی شاعرہ ہی کی طرح عام سی لڑکی ہیں ہم
بڑی عام سی سوچیں
گھر ہو، دریچہ ہو، چوبیس گھنٹے انٹرنیٹ اور موبائل کا بچہ.
خیر یہ تو تھی ضمنی سی بات اب کیا کروں لاکھ انکار کروں۔لیکن ہوں تو خاتون ہی  نا۔ کہیں کی بات کہیں تو جوڑوں گی۔
اس پر یہ شکوہ بھی کروں گی کہ ہماری بات سننے کا تو اس گھر میں کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں- ہم تو چلے ہی جائیں گے کسی دن یہاں سے روتے ہوئے
تو ہوا کچھ یوں کہ ایک عدد کزن کی شادی فکس ہوئی اور ہم نے فیس بک پر اپلوڈ ہوئے اس کے میرٹل سٹیٹس کا اماں کو بتا دیا۔
اماں نے پہلے تو ہمارے سابقہ ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ایک عدد گھوری سے نوازا۔ وہ کیا ہے کہ ماں سب جانتی ہے۔پھر جب پورے تین منٹ تک ہم اپنے بیان پر قائم رہے تو انہوں نے گھورنا موقف کر کے ہمارے سورس آف انفارمیشن کا پوچھا ہم نے جھٹ کہا فیس بک۔ اور یقین کیجیے اسوقت لگا مارک زخر برگ نے زندگی مشکل کردی ہے جب میریٹل سٹیٹس بدلنے کی سائنس بتائی ہم نے
یہ موا سوشل میڈیا دن بہ دن مشکلیں بڑھائے  جا رہا ہے- اس دن ابا کو اس بات پہ قائل کرنے میں پورے پندرہ منٹ لگے کہ ان کے جگری یاروں کے بچے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے باوجود آپ کے دوستوں کی گھریلو زندگی بخوبی ڈسکس کرتے ہیں فیس بک پر- ہم تو کنسرنڈ ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ٹو ہوم اٹ مئے کنسرن کے ٹائٹل کے ساتھ ابا کے دوستوں کی ذاتی زندگی کے اسرار روموز از دئیر کڈز بھی بذریعہ سکرین شاٹس بھجوا دیتے جس پر ہمیں یہ شبہ نہ ہوتا کہ اماں ہمیں غلط غلط میسجز کرنے پر جوتوں سے ماریں گی
اس دن تو حد ہوگئی جب ایک عدد خاتون نے اماں کو بتایا کہ ان کا فون ایک ہفتے سے خراب ہے اور ہم نے اماں کو ان کا واٹس ایپ لاسٹ سین نکال کر دکھایا جو عین پانچ منٹ پہلے کا تھا
یعنی حد ہوگئی ہماری معصوم اماں کے ساتھ فراڈ
عجیب صورتحال اس دن ہوئی جب ایک فوٹو پر لگے کیپشن۔ ٹو باڈیز ون سول۔ پڑھ کے ہمیں پانی کا ایسا اچھو لگا کہ الاحفیظ الامان
غضب خدا کا جن کی ماؤں کی ساری عمر کی  سیاست  اس ایک نکتے پر چلی تھی کہ کہ اس نگوڑی نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے- انہی کے بچوں کی روح ایک دوجے میں حلول کر گئی- ہائے کیسی مشکل ہے- بس سوشل میڈیا کے پیٹ کے جہنم کو بھرنے واسطے ان شادیوں پر جا کہ بھی ڈی پیز کھینچنا پڑتی ہیں جن کا وجود ہی کھٹکتا ہے کانٹے کی طرح
ایسا بھی دیکھا ہے ان گناہ گار آنکھوں نے کہ اسی فیس بک پر وہ بھی لولز روفل کرتے پائے جاتے ہیں جن پر گھر والوں نے بچوں کے سامنے ہنسنے پر پابندی لگا رکھی ہوتی ہے
اور وہ مائیں بھی مائے لو کا کیپشن لگاتی ہیں بچوں کی تصویروں پر جو پورے خاندان میں ببانگ دہل فرماتی ہیں
سارے دے سارے کوجے دادکیاں تے ٹر گئے نے- اک وی میرے تے نئیں گیا
اور وہ بیویاں بھی مائے ہبی مائے لو اور وہ شوہر بھی مائے وائف مائے لائف کرتے پائے جاتے ہیں جن کو عمر بھر سچا پیار نہیں ملا کرتا
کیسی مشکل گھڑی ہوتی ہے وہ جب اس کا سٹیٹس بھی لائک کرنا پڑتا ہے جن کے متعلق ایک بار گھریلو ڈسکشن میں ہماری بہن نے پوچھا تھا کہ یہ مکھی کو پیدا کرنے میں بھی تو رب کی حکمت ہے نا کوئی؟ اور ہم نے ان صاحب کی مثال دے کر واضح کیا تھا نہیں کچھ برا قدرت کے کارحانے میں
آجکل ہم عجیب مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں جب کبھی فیس بک ٹویٹر لاگ ان کرتے ہی کسی کا میریٹل سٹیٹس بدلا ہوا پاتے ہیں- اب اپنے منہ سے بتاتے خاک اچھے لگیں گے ہم کہ ہماری عمر کے لوگ آجکل دھڑا دھڑ منگنیاں شادیاں فرما کر صابرین میں شامل ہو ثواب دارین حاصل کر رہے ہیں- تو ہم کہہ رہے تھے جب بھی ایسی کوئی خبر ہم تک بذریعہ سوشل میڈیا پہنچتی ہے تو ہم ایک منٹ کے لیے مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ مبارک باد دی جائے یا۔۔۔۔۔
کیسی مشکل گھڑی میں لا چھوڑا ہے ہمیں اس موئے سوشل میڈیا نے سمجھ ہی نہیں آتا یہ جس بابا کی پرنسسز کا سٹیٹس دوپہر میں لائک کیا تھا شام تک وہ پرنسسز آف سم ونز ہارٹ بن چکی ہوتی ہے
اور جس کارنیٹو پر ہم آئسکریم سمجھ  کرندیدوں کی طرح دل بنا رہے ہوتے ہیں، وہ دراصل لو فرام سم ون ہوتی ہے
بھئی ہم سے تو ان ساری مشکلات کا کوئی حل نکالا نہیں جاتا آپ ہی سب کچھ کر سکیں تو ہمیں اس مشکل سے نکالیں ہم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی

نوٹ اکاؤنٹ ڈی ایکٹویٹ کرنے کا مشورہ دینے والے کو بلاک فرما دیا جائے گا

1 comment:

  1. سب کی مائیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں
    ہے نا

    ReplyDelete