Pages

Tuesday 11 July 2017

کہنا یہ تھا کہ وہ


کہنا یہ تھا کہ وہ________
خواتین ڈائجسٹ کی ہیروئن کئی سالوں سے مٹروں والے چاولوں کے ساتھ شامی کباب دہی کا رائتہ اور آم کی چٹنی بنا رہی ہے_
کوئی اس کا مینیو ہی بدل دو یار.
اچھا اگر مینیو نہیں بدلنا تو اس کی ڈریسنگ سینس ہی ایمپرو کر دے کوئی تھوڑی
کب تک آخر کب تک وہ سفید چوڑی پائجامے کے ساتھ انگوری رنگ کی چکن کی انارکلی فراک پہنے دوپٹہ کندھے پہ ٹکائے سیڑھیوں سے پھسلتی رہے گی؟ آخر کب تک؟
کب تک ہیرو اسے کندھوں سے تھامتا تاڑتا رہے گا؟
اچھا یہ سب بھی نہیں کرنا؟؟
تو پھر اس پائپ میں ہی کوئی چھید کر دے جسے تھامے وہ پودوں کو پانی لگانے میں اتنی مگن ہوتی ہے کہ کھلے گیٹ سے اندر آتے "ارمغان حجازی" پر اس کی نظر ہی نہیں پڑتی- اور جب پڑتی ہے تو ارمغان صاحب گہری کالی آنکھوں میں غصہ اور بھوری مونچھوں تلے دبی مسکان لیے تکتے پائے جاتے ہیں؟ کیا ایسا کوئی شیر دل ہے جو ان سائینسدانوں کو بتا سکے کہ آنکھوں اور بالوں کا رنگ ایک سا ہوتا ہے انٹل آپ کے جینز میں کوئی کیمکل لوچا نہ ہو-
نہیں؟
تو پھر فائنل ایک بات چوڑی پیشانی پر تفکر کی لکیریں لیے ہسپتال کے کاریڈور میں ٹہلتا کوئی عباد ڈھونڈ دیا جائے ہمیں جو ہمارے لیے کم از کم بھی ستر اسی کڑوڑ کی ڈیل فائنل ہوتے ہوئے چھوڑ آئے کہ نوڈلز بناتے ہم ہاتھ جلا بیٹھے تھے. اور جو اپنی "فیراری" کا اندازہً دس بارہ بار ایکسڈینٹ کرتے کرتے رکا ہو کہ مرغی ہمارا پاؤ لتاڑ گئی تھی.؟
یہ بھی نہیں؟ 
سحرش

No comments:

Post a Comment