Pages

Sunday 10 April 2016

پرندے ڈر کے اڑ جائیں تو۔۔۔


کھڑکی کے باہر چڑیوں نے گھونسلہ بنا لیا ہے۔اب روز صبح چار بجے جب نیند پلکوں پہ مہربان ہونے ہی لگتی ہے۔ میرے ننھے ہمسائے جاگ جاتے ہیں اور چار بجے سے جو داستان امیر حمزہ شروع کرتے ہیں تو دن ڈھلنے بعد مغرب کے بعد ہی چپ ہوتے ہیں

کافی دنوں سے ان کی "مصروف" آوازوں سے میں اندازے کے گھوڑے دوڑ دوڑا کے تھک جاتی ہوں لیکن مجال ہے جو مصروفیت کا عقدہ کھل کے دیا ہو۔آج صبح جب پانچ بجے چوں چوں کی دو مختلف آوازوں میں تین یا چار نئی اور قدرے نخیف آوازیں بھی سنائی دیں تو مصرفیت کا راز افشا ہوا۔ لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔ اچھا تو اس بات کا اضطراب بھرا جوش تھا

ان ننھی آوازوں کے بدلے آج بی اماں چڑیا قدرے محتاط تھیں جیسے اپنے ننھے بچوں کی نیند ٹوٹنے کے ڈر سے مائیں ایڑیاں اٹھا اٹھا کے چلتی ہیں۔ آج اس کی چوں چوں میں بھی ویسی احتیاط تھی..جیسے ماں فیڈر بھی بنائے تو بنا آواز کے ٹھہر ٹھہر کے ہلاتی ہے کہ گود میں سویا وہ ننھا فرشتہ  اٹھ نہ جائے۔ آوازوں میں ویسی احتیاط بول رہی تھی اور سہ پہر ڈھلتے ہی میرے ہمسائے چپ ہو گئے تھے۔ شاید ننھے فرشتوں کی نیند کا شیڈول  سیٹ نہ ہو پایا ہو۔

ابھی سنی جا سکنے والی آوازوں میں گو چڑیا کی اپنی آواز سب سے نخیف اور کمزور معلوم پڑتی ہے لیکن ان چھوٹی آوازوں کے سامنے وہ تھنڈر کلیپ معلوم ہوئی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ مضبوط ہو گئی تھی یا بدل گئی تھی آواز کی پچ اس کا ساؤنڈ ویسا ہی تھا۔ لیکن لہجہ بدل گیا تھا۔ مجھے لگا معصوم چڑیا سے "ماں" کا سفر طے کیا ہے۔ اس آواز نے جو حفاظت کرنا بھی جانتی ہے اور محفوظ رکھنا بھی اور لہجے کی یہ مضبوطی اسے اسم محبت نے بخشی تھی

محبت بھی کیا عجب شے ہے نا! انسانی رشتوں سے سہم جانے والے سوہنی کو شوریدہ سر چناب سے لڑوا دیتی ہے۔ صحرا میں گلستاں تلاش کرتی سسی کو سراپا صحرا بنا دیتی ہے اور لوگوں سے اسباب چھینتے ان پر زندگی اجیرن کرتے خیام کو شاعر بنا دیتی ہے۔ خوف اور دہشت کی علامت خیام، رباعیاں لکھتے لکھتے ماروی کا سنگ در بننے کی سراپا تمنا ہو جاتا ہے۔ محبت اتنی ہی طاقتور ہوتی ہے

سراپا قہر و غضب عمر(رض) کو فاروق بنا دیتی ہے۔حبشی سید کہلانے لگتے ہیں۔ اسی لیے شاید محبت کرنے والے بے ریا، خالص اور بے غرض محبت کرنے والے لوگ بہادر اور غنی ہوتے ہیں۔ اجلے اور اور خالص ہوتے ہیں کیوں!! کیونکہ محبت ان کے اندر کی کجی مار دتی ہے۔ پھر کھونے کا خوف بھی جاتا رہتا ہے

صرف پانا ہی تو محبت نہیں نا۔۔۔ چڑیا کی آواز میں بولتا مان اور غرور بھی اسی محبت کی عطا تھا۔ جو خالق اپنی تخلیق کے بعد ماں کے دل میں القا کرتا ہے۔ جو لہجے میں نغمیت کا استعارہ بن جاتا ہے اور ہر دم لفظوں میں گنگناتا ہے۔ جیسے ماں کی سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسی ایکنغمے کی دھن ہوتی ہو۔ویسے ہی جیسے ہیر کے من میں ہر دم رانجھے کی ونجلی بجتی تھی اور جیسے صاحباں کو مرزا کے گھوڑے کی ٹاپ پیاری تھی۔
ویسے ہی جیسے خالق کو پکار پیاری ہے۔

روز سوچتی ہوں کہ پردے ہٹا کر ننھا سا نازک سا گھر دیکھوں۔ روز یہ سوچ کر ارادہ بدل دیتی ہوں کہ ۔۔۔

پرندے ڈر کے اڑ جائیں تو پھر لوٹا نہیں کرتے

No comments:

Post a Comment