Pages

Thursday 10 March 2016

Women's Day


یہ وہ معاشرہ ہے جہاں باون فیصد اکثریت کا صرف سولہ فیصد سکول، نو فیصد کالج، کا منہ دیکھ پاتا ہے اور ان میں سے دو فیصد یونیورسٹیز جا پاتی ہیں.اور وہ جو دو فیصد ہیں بد قسمتی سے برابری و حقوق کہ چکر میں آنکھوں پر، جان لینے کی پٹی باندھے، بس دائروں میں ہی گھومے چلے جا رہی ہیں۔

محترم خواتین، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جب آپ دعوی کرتی ہیں کہ عورت ہونا بہت مشکل ہے۔ جب آپ اپنی کافی میں سے سپ لگاتے ہوے سوشل میڈیا پر باون فیصد کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوے میرٹل ریپ،میوچل اینڈرسٹینڈنگ، آفس اینوائرنمنٹ اور فری سوشلائزیشن جیسے منفرد سوفیسٹیکیٹڈ مسائل پر بات کرتے ہوئے "عورت کہ مسائل تم کیا سمجھو گے" جیسے جملوں پر اختتام کرتی ہیں۔ یقین جانیے یہ جملہ ہی بے ساختہ میرے منہ سے نکل جاتا ہے
آپ خواتین کے حقوق کی بات کرنے کی بجاے مذاحیہ سا تقابل پیش کرتی ہیں کہ اتنی بچیاں درندگی کا نشانہ بن گئیں۔ لڑکی ہونا جرم ہوگیا...گویا آپ چاہتی ہیں بچیاں درندگی کا نشانہ بنی ہیں تو خدانخوستہ معاشرے کی دوسری اکایئاں بھی سفر کریں...ویسے کیوں نہ یہ غلط فہمی بھی دور کر دی جاے آپ کی؟
تو سنیے انٹرنیشنل رہ ھیبلیٹیشن انسٹیٹوٹ فار ریپ وکٹمز والے کہتے ہیں پاکستان میں بچیوں کی نسبت بچوں سے جنسی زیادتی کہ واقعات تین گنا زیادہ ہیں لیکن چونکہ آپ لوگوں کے خیال میں وہ جرم نہیں تو اس پر بات نہیں
پھر ایمنسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کے ضمن میں کہتی ہے کہ پاکستانی مردوں پر گھریلو تشدد میں اڑتیس ملکوں کی فہرست میں اکیسویں نمبر پر ہے اور اس تشدد کہ خلاف آواز اٹھانے والے ملکوں میں ہماراکہیں نام نہیں  اور یہ تو آپ معزز خواتین کو پتا ہی ہوگا کہ پاکستان میں مردوں میں ڈپریشن خواتین کی نسبت زیادہ ہوتا جا رہا ہے...وجوہات کے ضمن میں ظالم گھریلو نا چاقی کو سب سے اوپر لکھتے ہیں۔  
خیر میرا مقصد یہ لا یعنی تقابل پیش کرنا کبھی بھی نہیں رہا۔یہ تو صرف  بتانے کہ لیے تھا کہ معاشرے میں ہر دو اکایئاں سفر کر رہی ہیں اوروہ اپنی جنس کی وجہ سے نہیں کارل مارکس والے "مظلوم" طبقہ سے ہونے کی وجہ سے کر رہی ہیں 
استحصال کرنے والا جنس نہیں اختیار کے بل پر استحصال کرتا ہے
لہذا حقوق کی جنگ لڑتے ہوے سیلف پٹی سے باہر آئیے۔ کمزور طبقے کے طور پر حقوق مت مانگیے کہ کوئی بھیک میں دے گا۔
معاشرے کی ایک باوقار کارآمد اور اپنی ذات میں مکمل اکائی کی حثیت سے حقوق کا تقاضا کیجیے۔ کیونکہ ھمدردی کی بنیاد پر برابریاں نہیں مانگی جاتیں
اور ہاں باون فیصد کے مسائل سمجھیے۔یقین کیجیے عمر کوٹ میں گھڑے بھرتی، چمن میں بکریاں چراتی، دیر میں لیمن گراس اگاتی اور چک بے جیم شمالی میں گندم کاٹتی کسی ثریا کسی سکینہ کسی مریم کو ایکول سوشلائزیشن کا درد سر لاحق نہیں۔ نہ انہیں میرٹل اور پوسٹ باٹم ڈپریشنز ہی ہوتے ہیں۔ ان کہ مسائل سمجھیے انہیں روٹی چاہیے۔ بچے کہ لیے اس کی پیدائش پہ میڈیکل اسسٹنٹ چاہیے۔ ڈیڑھ ماہ کی "چھٹی" چاہیے ۔انہیں اپنا نام لکھوانے کی حاجت سے چھٹکارا چاہیے۔اور انہیں محنت کا مناسب معاوضہ چاہیے۔
آپ لوگوں کو پتا ہے جنوبی پنجاب اور سندھ میں فالسہ چنتی خواتین کی روزانہ کی اجرت کتنی ہے؟؟؟ 
نہیں؟؟ کیسے پتا ہو گی۔ ان کی روزانہ کی اجرت فالسے کی ٹہنیاں ہیں۔ وہ ہی ٹہنیاں جن سے بنے مہنگے ہینڈی کرافٹس آپ لوگ ڈرائنگ رومز میں سجا کہ حقوق نسواں کہ متعلق گفتگو کرتیں ہیں

No comments:

Post a Comment