Pages

Thursday 10 March 2016

The girl in coffee shop


تمہیں یہ کھوج نہیں ہے کہ میری آنکھوں کے گوشے کس درد سے بھیگے رہتے ہیں نہ تمہیں یہ درد ہے کہ کس یاد کا الاؤ دہکائے رکھتی ہوں جگر میں، جو لہجے کی تپش سے تمہاری سماعتوں کے پر جلاتے ہیں ۔تم تو بس اس کھوج میں ہو کہ میرے لفظوں سے جب اشک ٹپکتے ہوں گے تو لفظوں کا رنگ کیسا ہوگا۔ تمہیں بس یہ دیکھنا ہے کہ جب اندر کی حبس سے گھبرا کہ میں کھڑکیاں کھول دیتی ہوں گی تو کیسا احساس زیاں ہوتا ہوگا۔ کیسی بےبسی چھلکے گی اور کیسے میری ہستی کا غرور ٹوٹے گا۔ تم میرے درد سمیٹنا نہیں ان کہ اشتہار لگانا چاہتے ہو۔۔تاکہ تم کہہ سکو۔ کہا تھا نا، اس صنف میں برداشت کا حوصلہ نہیں ہوتا....سنو تم بس مجھے ٹوٹ کر بکھرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو...تاکہ تم ان کرچیوں پر ججمنٹس دے سکو ،ترس کھا سکو۔

سنو۔
کانچ سی اس لڑکی کو اپنی ہستی کے پندار کو، ہستی کی قیمت پر بچانا پڑا تو وہ بچالے گی۔۔ مجھے اپنے خیال کی رعنائی دے کہ اپنا غرور بچانا پڑا تو میں بچاؤں گی۔مجھے اپنی سوچ کے جگنو مار کہ اپنے اندر کی تاریکی بچانی پڑی تو میں بچاؤں گی
کافی ہاؤس کہ نیم تاریک گوشے میں رکھی میز پر وہ گھنگریالے بالوں والی لڑکی کسی ربورٹ کی مانند بیٹھی تھی جیسے کچھ دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو
مگ میں سے گھونٹ گھونٹ تلخی اندر اتارتے پینٹر نے لڑکی کی آنکھوں سے چھلکتی بے اعتباری کو تاسف سے دیکھا اور گلاس وال سے باہر دھند میں لیپٹی سپہر دیکھنے لگا۔ گویا یہ ساری دھند لڑکی کی باتوں سے فضاء میں منتقل ہوئی ہو
بات گو ذرا سی تھی پینٹنگ کے شارٹ کورسسز کرانے والا ، ایک جانا پہچانا پینٹڑ اور  سٹوڈنٹ  کے لہجے میں کوئی خاص بات تھی ،جو اسے چالیس کی کلاس میں ممتاز کرتا تھا جو یوں میں اس کے ساتھ کافی شاپ پہ بیٹھا تھا
اور یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ میں نے اس کو پرت در پرت کھولنا چاہا تھا اور وہ ہتھے سے اکھڑی تھی...دنیا جہاں کہ موضوعات پہ بات کرتی ہوئی اپنی تصویروں ایگزبیشن، پر اعتماد سے ڈیلنگ کرتی ہوئی اور لیکچر دیتی ہوئی اس مضبوط خاتون میں اور اس میں بہت فرق تھا یہ اپنی ذات کے گنبد میں بند اکیلی خؤد اذیتی کا شکار تنہا لڑکی نظر آئی
میں چلتی ہوں، کی آواز نے میری سوچ کو بریک لگائی اور میں واپس حال میں لوٹا تو لڑکی کے چہرے پر گزرے چالیس منٹ کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ گویا یہ روز کا قصہ ہو
میری توجہ کو اجازت سمجھتے ہو ئے وہ بیگ کندھے پہ ڈال کہ کافی شاپ سے باہر نکل گئی
میں بھی واپس اپنی دنیا میں لوٹ آیا اور ارد گرد کی میزوں پر اچٹتی نظر ڈالنے لگا
کافی شاپ کہ دروازے پر ہاتھ رکھے اس نےمڑ کہ دیکھا تو اسے الوداعی مسکان چہرے پہ سجائے،ادھر ہی دیکھتا ہوا پایا۔وہ ہاتھ ہلاتی باہر چل دی۔ تم واقعی خود اذیتی کا شکار ہو گئی ہو۔کسی نے کان میں سر گوشی کی
خود اذیتی ؟؟؟ اپنے درد اپنے اندر چھپا کہ ہنسنا، خود اذیتی ہے؟؟ اپنے مسئلوں کے اشتہار نہ لگانا خود اذیتی ہے؟؟؟ اپنی ذات کا غرور بچانا خود اذیتی ہے تو ہاں پھر ہوں میں خود اذیتی کا شکار....ہونہہ، اپنی سوچوں میں گم لڑکی نے گاڑی سٹارٹ کی___
اب کے یہ درد کھوج کر چھوڑوں گا۔ پینٹر نے آخری گھونٹ بھرا اور کافی ٹیبل چھوڑ دیا
اور لڑکی نے تعلق چھوڑ کہ ہستی کا غرور بچا لیا.....ہستی کے پندار کے بغیر بھی کوئی عورت ہوتی ہے بھلا

No comments:

Post a Comment