Pages

Friday 25 March 2016

If You Forget Me


آؤ کسی دن اکٹھے کیٹس کی کوئی نظم پڑھتے ہیں۔۔کسی اوڑ پر پہروں اداس پھرتے ہیں ۔۔تم چلو تو کسی دن گزری جوانی تلاش کرتے ہیں ۔مجھے یقین ہے یونیورسٹی کے کسی بینچ پر پڑی ہوئی ملے گی۔۔جہاں ہم مخالف کونوں پر بیٹھ کے، درمیان میں فائلز رکھ کے گھنٹوں سسٹم کو بدلنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے

اور اپنے انقلابی خیالات کا پرچار کرتے ہوئے کلاس بھی بنک کر دیا کرتے تھے۔۔تمہیں پتہ ہے مارکسسٹ ہو گئے تھے تم دوسرے سمیسٹر میں اور  پوری کلاس میں مشہورہوگیا تھا کہ رشیا کا ویزہ آگیا ہے تمہارا..تم پورا ہفتہ لوگوں کو صفائیاں دیتے ہوئےاس شخص کی تلاش میں تھے، جس نے یہ افواه اڑائی تھی۔۔سنو وه میں تھی۔۔ اب سوچوں تو ہنسی آتی ہے کس قدر بچگانہ شرارتیں تھیں۔
یاد ہے تمہیں اینول ٹور پر سیف الملوک پر سٹنڈ ہونے کی ایکٹنگ کی تھی میں نے اور تم رونے والے ہو گئے تھے۔سنو! اس دن میں اپنی زندگی کی پہلی اور آخری شرط ہاری تھی۔۔میری دوستوں کا خیال تھا کہ تم پریشان ہو گے جب کہ مجھے لگتا تھا، تم نارمل رہو گے۔۔پر تم نے تو مجھ سمیت سب کو حیران کردیا۔۔ کتنے خوبصورت دن تھے نا۔
آؤ پھر سے اسی معصوم دنیا میں لوٹ چلیں جہاں ہمیں بڑے بڑے مسائل حل نہیں کرنے تھے۔ جہاں ہماری زندگیاں کیمپس سے شروع ہو کر نہر پر ختم ہو جاتی تھیں۔۔نیو کیمپس والی نہر پر واک کرتے کرتے ہم اکثر پوائنٹ مس کر دیتے تھے۔ پر اب تو لگتا ہے راستہ ہی کھو دیا ہے۔ کہیں بہت آگے نکل آئے ہیں ہم۔ اتنی آگے کہ اب زندگی بھی پیچھے ره گئی ہے۔۔تم کسی دن اپنی مصروف زندگی میں سے ایک دن نکالنا...کالج چلیں گے۔۔
اشفاق احمد کہتا ہے ۔۔ ستر سال کے ہو کر بھی جی سی جائیں تو اپنا آپ جوان لگنے لگتا ہے اور گزرا ہوا وقت واپس آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔۔سنو مجھے زندگی کے اس موڑ پر ان احساسات کی اشد ضرورت ہے، تم ایک دن سِک لیو لے لینا ہم جی سی چلیں گے.. بالکل پرانے دنوں کی طرح مینار کے نیچے بیٹھ کر سیمی کے کردار پر بحث کریں گے۔۔میں قیوم کی طرفداری کروں گی تم سیمی کو جسٹیفائی کرنا۔گھنٹوں برباد کریں گے...میں وہی اورنج شال اوڑھوں گی۔ جس پر تم نے مجھے ساحر کی کوئی بھولی سی نظم سنائی تھی۔ میں بے ساختہ مسکرا اٹھی تھی تم نے چڑ کے میری مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تھی تو میں ہنس کر ٹال گئی تھی۔
سنو!اس کی وجہ پنجابی کا ایک ٹپہ تھی۔ جس میں وه اپنی ہر ادا سے پنجاب کے ایک دریا کو لوٹنے کا تذکره کرتی ہے۔جب سارے دریا لوٹ چکتی ہے تو آخر میں کہتی ہے
"نی میں ہس کے کویتا والا ماہی لٹیا"
تو اس دن مجھے بھی لگا تھا کہ میں ہس کے کویتا والا ماہی لٹیا۔سنو اب بھی نظمیں پڑھتے ہو؟ ساحر، فراز، فیض ؟ یا ہندسوں نے تم سے تمہارا ذوق جمال بھی چھین لیا؟۔۔۔ اظہار کے لفظوں کی طرح..تم بات کرنا فیکیلٹی ممبرز سے ...پھر اپنے اپنے ٹیرس سے چاند کو دیکھیں گے۔ملکی وے میں اپنا اپنا ستاره ڈھونڈیں گے۔ پھر اس ستارے کا پیچھا کریں گے۔
تم بھی کہو گے کیا پاگل لڑکی ہے

پاگل ہی تو ہوں۔۔ گزرے وقت کی رنگین تتلیاں پھر سے پکڑنا چاہتی ہوں جن کے رنگ وقت کی دھول میں اتنے ہلکے ہو گئے ہیں کے انھیں پہچاننے کیلئے بھی ذہن پر زور دینا پڑتا ہے...ہاں نا زور ہی۔۔

کل وه قمر ملا تھا شاپنگ مال میں، ہمارا کلاس فیلو۔ وه جس کا نِک نیم جب میں نے تمہیں بتایا تھا تو تم نے کتنی دیر سکتے میں رہنے کے بعد پوچھا تھا کہ سچ بتاؤ میرا کیا نک نیم رکھ چھوڑا تھا تم نے۔اور میں نے حلفا کہا تھا کہ تمہارا کبھی نام نہیں رکھا...سنو ایسا نہیں تھا..تمہارا نام بھی رکھا تھا...کسی دن بتاؤں گی، اب تمہیں کھونے کا ڈر جو نہیں رہا۔کیونکہ اب تم حاصل میسر ہی نہیں ہو، تو کھونا کیسا۔ کل پرانی بکس میں سے ایک ڈی وی ڈی ملی تھی لیپ ٹاپ میں تو چل ہی نہیں رہی تھی پر مجھ پر دھن سوار تھی اسے چلانے کی اس کے کور کے کونے پر وه چھوٹی سی سمائل بنی تھی۔ جو تم مجھے دیتے ہوئے ہر چیز پر بناتے تھے۔اور میں قہقہہ لگاتی تھی کہ تم نہیں سدھرو گے،اب سوچتی ہوں کیا ہی اچھا ہوتا جو نہ سدھرتے ۔۔ سدھر کے بے حس ہو جاتے ہیں لوگ
ڈی وی ڈی چلائی تو پہلا گانا ہی ابرار کا مجھے ماہی یادآتا ہے" تھا۔ پتا ہےاس گانے کو سن کے کیا کہا تھا ہم نے؟؟ ہمیں لگا تھا کسی نے ابرار کو ہماری مخبری کر دی ہے۔تمہارا تو پتا نہیں پر اب بھی جب دوور کسی جنگل میں کوئی پنچھی گنگناتا ہے...تو ،مجھے ماہی یاد آتا ہے۔

آج بھی مجھے وه سنہری شام یاد ہے۔ جس دن تم نے زندگی کے سردوگرم میں ساتھ نبھانے کی ذمہ داری لی تھی۔ساده سی پروقار تقریب۔جس کی تمام تر تفصیلات اپنی جزیات سمیت یاد ہیں مجھے۔۔افسوس اس بات کا ہے کہ زندگی کے سرد دن تو ساتھ نبھا گئے تم جب تحفے چھوٹےتھے اور محبت بڑی تھی۔پر جب سے مادی زندگی میں گرمجوشی آئی ہے،تب سے اندر ہی اندر مجھے تمہاری سرد مہری مار رہی ہے۔مجھے تو یہ "خوشحالی" لے ڈوبے گی
سنو ابھی بھی مٹھی سے سرکتی ھوئی ریت کی ماند عمر کے چند ذرات بچے ھیں۔۔۔ ابھی بھی میں پوائنٹ اف نو ریٹرن پر نہیں پہنچی۔۔۔ ابھی بھی دسمبر کے آنے پر میں پرانے کارڈز اور ان پر لکھی نظمیں ۔۔۔نظموں کے درمیان پنکچوئشن اور اس پر کوئی یاد۔۔۔ دھیمی مسکراھٹ ۔۔کوئی بھولا بسرا آنسو۔۔۔ کسی یاد کی خوشبو ۔۔۔کسی لمحے کا فسوں جگاتی ھوں۔میں اب بھی پھر ان کتابوں کو تکتی رھتی ھوں۔ وه جن کا حصول کبھی ہمیں ہفتوں مسرور رکھتا تھا۔
اب ہم دونوںاپنے اپنے کنڈل پر کتابیں پڑھتے ہیں۔ دنیا جہان کے موضوعات۔۔ ان پر ریوویوز بھی۔ اب ہم کتاب کے ساتھ اپنے محسوسات بیان کرنے سے قاصر ہیں....ہر سہولت مہیا کر دی ہے، تم نے مجھے....ہر وه چیز جو کسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتی ہے....پر کوئی ویکیوم تھا جو بھرنے کا نام نہیں لیتا تھا....بک ریک کی ترتیب درست کرتےھوئے ایک کارڈ ھاتھ لگااور مجھ پر کھلا کہ اتنی أسائشیں بھی خالی پن کو کم کرنے میں ناکام کیوں ھیں۔ کارڈ پر تین لفظی ایک سطر تھی...بلکہ کتاب پر ایک خیال کا تاره جگمگا رھا تھا جس نے کبھی مجھے میری ذات کا عرفان بخشا تھا ۔جس فقرے نے مجھے اتنا معتبر کر دیا تھا کہ میں سرشاری کہ عالم میں پھرتی رہی۔جب تم نے وه کارڈ مجھے دیا تھا نا تو تشکر کا ایک بھولا بھٹکا آنسو بھی گرا تھا۔ اس فقرے پر آج بھی اس آنسو کے مٹے مٹے سے نشان محبت کا پتا دیتے ھیں...تم نے لکھا تھا۔۔۔۔۔ بہت خاص لڑکی کے لیے
سنو! وه خاص لڑکی تمہاری محبت کی قیمت پردنیا خرید کر کیا کر لے گی ؟؟ جواب ملے تو بتانا
میں یہ ساری داستاں تمہیں میل کر رہی ہوں۔ کیونکہ اب تم جی میل کو ویسے ہی سنتے ہو جیسےکسی زمانے میں مجھے سنا کرتے تھے
کافی پینی ہوئی تو بتانا اب بھی اچھی بناتی ہوں۔

No comments:

Post a Comment