Pages

Wednesday 20 March 2019

رسیدی ٹکٹ




ہفتہ کتب 
رسیدی ٹکٹ
امرتا پریتم
صحافی نے امرتا پریتم سے کہا آٹو بائیو کب لکھیں گی۔امرتا نے جواب دیا زندگی تو یوں گزری کے لکھنے بیٹھوں تورسیدی ٹکٹ پر لکھی جائے۔
پوسٹل ٹکٹس میں رسیدی ٹکٹ سب سے چھوٹی ہوتی ہے سائز میں۔
امرتا نے زندگی بھی ایسے ہی بیان کردی۔
کتاب کی پہلی سطر سے آخری سطر تک نہ ربط ٹوٹتا ہے نہ سحر۔
وہی سحر جو ساحر کا تھا امرتا کی زندگی میں جو امرتا کا تھا امروز کی زندگی میں۔
امرتا کی شاعری میں "ہوکے بھرتا"درد پڑھ کر آپ ساحر سے جتنی نفرت کرتے ہیں اس کی نثر پڑھ کے آپ اس سے اتنی ہی محبت کرنے لگتے ہیں۔
سوچیں جو ساحر نہ ہوتا اور ایسا سیلانی نہ ہوتا تو کیا امرتا ہوتی اور کیا ایسے ہی محبت کو امر کرپاتی امرتا۔
اپنی دھرتی کو مخاطب کر کے اپنی زبان میں جس طرح امرتا محبت کے نئے لہجوں میں گنگناتی ہے وہ اسی کا طرہ ہے جس میں تھوڑے سے تھوڑا زیادہ حصہ ساحر کا ہے۔
خیر کتاب میں امرتا کا بیان ہے اس کی زندگی ساحر سے محبت امروز سے شادی بیٹے کی پیدائش امرتا کے سفر سب کچھ موجود ہے۔
اس کے خیال کے ساتھ ساتھ کبھی آپ ماسکو جا پہنچتے ہیں اور کبھی وہ میونخ لے جاتی ہے آپکو۔
اگر رسیدی ٹکٹ نہیں پڑھی تو اس سال کی لسٹ میں لکھ لیں اسے۔
امرتا سے محبت کی مستقل مزاجی سیکھی تھی اور جب اس کی آنکھ سے دیکھا تو یہ جانا سیلانیوں کی قسمت میں مزاج ہی کی طرح مستقل کچھ نہیں ہوتا۔
امرتا کی کتاب کا تعارف ساحر نامہ بن گیا لیکن کیا کیا جائے امرتا کی زندگی و کتاب سے ساحر نکال دیا جائے تو پیچھے کیا بچے گا?
سماج کی ریتوں میں جکڑی دو آزاد روحیں جن کا شعور انہیں سماج کے بیرئیرز بھی توڑنے نہیں دیتا۔



ڈی جے اینرائٹ لکھتا ہے
باغی ہونا بہت ضروری ہے
لیکن تم ہی ںاغی ہو یہ اچھا نہیں
سو ہم بھی کہتے ہیں سیلانی ہونا بہت اچھا ہے لیکن ہم ہی سیلانی ہوں یہ اچھا نہیں۔ 
ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں شائد سیلانی ہونا افورڈ نہیں کرسکتے۔ عشق میں ںھی عقل ساتھ لیے پھرنے والے۔
جنوں میں بھی خرد کا دامن تھامے رکھنے والے سیلانی نہیں ہوسکتے کہ اس کے لیے جو جرات درکار ہے وہ ہم میں آپ میں نہیں۔ لیکن سیلانیوں سے سماج خالی ہو ایسا جمود بھی اچھا نہیں۔
ساحر کا ہونا اور امرتا کی کہانیوں میں ہونا بہت ضروری ہے۔
وصل و فراق ہمارے لفظ ہیں ایک سائیکولجسٹ کے خیال میں زہنی حالتیں ہیں یہ لہذا منطقی انجام کا ہوکا نہ ہو تو رسیدی ٹکٹ بہترین انتخاب ہوگا بئیمان موسم میں چائے کافی کے ساتھ۔
اور اگر منطقی انجام کے خواہاں ہوں تو امرتاکی وہ نظم گنگنا لیجئے۔
میں تینوں فیر ملاں گی​
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں​
شاید تیرے تخیل دی چھنک بن کے​
تیرے کینوس تے اتراں گی​
یا ہورے تیرے کینوس دے اُتے​
اک رہسمئی لکیر بن کے​
خاموش تینوں تکدی رواں گی​
یا ہورے سورج دی لو بن کے​
تیرے رنگاں اچ گھُلا گی​
یا رنگاں دیاں باہنواں اچ بیٹھ کے​
تیرے کینوس نو ولاں گی​
پتا نئیں کس طرح، کتھے​
پر تینوں ضرور ملاں گی​
یا ہورے اک چشمہ بنی ہوواں گی​
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا​
میں پانی دیاں بُونداں​
تیرے پنڈے تے مَلاں گی​
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے​
تیری چھاتی دے نال لگاں گی​
میں ہور کج نئیں جاندی​
پر اینا جاندی آں​
کہ وقت جو وی کرے گا​
اے جنم میرے نال ٹُرے گا​
اے جسم مُکدا اے​
تے سب کج مُک جاندا ​
پر چیتیاں دے تاگے​
کائناتی کنا دے ہوندے​
میں انہاں کنا نو چناں گی​
تاگیاں نو ولاں گی​
تے تینوں میں فیر ملاں گی



امرتا پریتم۔​

No comments:

Post a Comment